Meraj ud din nadvi
الإسلام هو رسالة الأمن والسلام
Tuesday, December 25, 2012
Sunday, January 1, 2012
v ب
بسم الله الرحمن الرحيم
مجلة التلميذ هي مجلة يصدرها الدكتور معراج الدين الندوي بتعاون بعض الأساتذة الكرام والأصدقاء الأعزة الذين شاركوا في إنجاز هذه المجلة،للناشئين والدارسين للغة العربية وآدابها في ربوع جامو وكشمير خاصة و أنحاء الهند كلها عامة. فالحقيقة أن هناك في كشمير لا توجد مجلة عربية تقوم بتثقيف الناشئين والناشئات وتهتم بتوجيههم نحو سليقتهم العربية الأصيلة. فكان هناك شعورا متناميا منذ زمن طويل بأن تستخدم اللغة العربية في وطننا جامو و كشمير خاصة وفي جميع بقاع الهند عامة بإصدار مجلة عربية للناشئين وطلاب العربية فإن خطوتنا هذه تجاه إصدار المجلة تبشرنا بمستقبل أدبي صحفي زاهر لطلبة العربية وطالباتها ــــــإن شاء الله ــــــــ
v مجلة "التلميذ " هي مجلة الجميع فبتواصلكم معها وعطاؤكم تتظافر الجهود ونخرج وإياكم بالفائدة المرجوة ومن هنا فإننا نفتح المجال للجميع أساتذة وطلاب بالمشاركة الفاعلة فلن تنهض هذه المجلة إلا بتكاتف الجميع ومشاركتهم المتواصلة واقتراحاتهم الهادفة .
v وليس ثمة شك بأننا نحتاج إلى بذل جهود مركزة لترقية اللغة العربية وتنميتها في ولاية جامو و كشمير خاصة وجميع أنحاء الهند عامة. فنحن نرجوا منكم المساعدة العلمية والأدبية والتوجيهات اللطيفة.فمن فضلكم أن تعاونوا على البر والتقوى. فهذه المجلة منكم وإليكم...........
مجلة التلميذ مجلة مدرسية منسقة و كاملة
Friday, December 31, 2010
تحریک آزادی نسواں محض ایک ڈھونگ
عورت کا وجود کائنات کے رنگ وبو میں ایک حسین اضافہ ہے، انسانی زندگی کا کون سا موڑ ہے جہاں عورت کی حصہ داری نہ ہو، حیات انسانی کا کون سا دور ہے جس کی تعمیر وترقی میں عورت نے اپنی ساجھے داری درج نہ کرائی ہو، کون سا علم وفن ہے جس میں عورت نے قابل قدر کارنامہ انجام نہ دیا ہو، کون سا شعبہ حیات ہے جس میں عورت کا نمایاں کردار نہ ہو، کون سا معاشرہ ہے جس کو بام عروج تک پہنچانے میں عورت نے ہاتھ نہ بٹایا ہو اور کون سا ملک ہے جس کی سماجی واجتماعی، اقتصادی ومعاشی، علمی وسائنسی، دینی واخلاقی ترقی وفروغ میں صنف نازک نے اپنی شراکت کی دھوم نہ مچائی ہو، یہاں تک کہ وہ شعبہ جو مردوں کے ساتھ خاص سمجھا جاتا ہے، اس میں بھی عورتوں نے قابل قدر مہارت وصلاحیت پیدا کرکے اپنی تابناک تاریخ درج کرائی ہے، کون سا تاریخ کا طالب علم ہے جو میدان جہاد کی خنساء، دلی کی تاجدار رضیہ سلطان اور عدل جہانگیری کی کردار نورجہاں سے ناواقف ہے۔
اسلام کے زیر سایہ حجاب کی پابندی کرکے صنف نازک نے ہر وہ کارنامہ انجام دیا جو صرف اسی کا حصہ تھا، اسلام عورت کو میدان جہاد میں تلوار چلانے سے منع کیا ہے، نہ مسجد میں جانے سے، غزوہ احد میں ام عمارہ رضی اللہ عنہا کے ابن قمئہ پر تلوار سے وار کا کون انکار کرسکتا ہے جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شہید کرنے کی خبر اڑادی تھی اور مسجد نبوی میں انصار ومہاجر عورتوں کی حاضری ناقابل تردید حقیقت ہے۔ خنساء رضی اللہ عنہا اور جہاں گیر کی بہن زیب النساء کی شاعری کی داد نہ دینے والا آپ بے بہرہ ہے۔ اندلس کی مشہور محدثہ ام سعد علم حدیث میں باکمال تھیں، قرطبہ کی لبانہ علم حساب وہندسہ کی بڑی ماہر تھیں، الجبرا اور مساحت و پیمائش کے نہایت پیچیدہ مسائل وہ چٹکیوں میں حل کردیتی تھیں۔ اسلام عورت کو تعلیم حاصل کرنے سے منع کرتا ہے نہ تجارت ودکان داری کرنے سے، مسجد نبوی میں ہر جمعرات کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تعلیم وتربیت کے لئے عورتوں کا خصوصی حلقہ درس قائم کرتے تھے اور بنی قینقاع کے بازار میں صحابیہ عورت کا دکان داری کے لئے جانا اور ان کے ساتھ یہودیوں کی شر انگیزی اور ان کی پکار پر یہودی کا قتل تاریخ کا مشہور واقعہ ہے۔ اسلام صنف نازک کو زراعت سے روکتا ہے نہ جانور پالنے سے، اسماء بنت ابو بکر رضی اللہ عنہما کا اپنے شوہر زبیر بن العوام کے گھوڑے کے لئے گھاس کاٹنے کے لئے جانا اور صحابیات کا اپنے شوہروں کے باغ میں آبپاشی و سینچائی کرنا مشہور واقعات ہیں۔ ہنگامی ، ایمرجنسی اور انتہائی ناگزیر حالت میں عورت کسی بھی معاملہ کی قیادت کرسکتی ہے، ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی جنگ جمل میں فوج کی قیادت تاریخ اسلام کا ایک اہم روشن باب ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے دوڑ کے مقابلہ کا واقعہ تو جہاں آشکارا ہے۔سردار دو جہاں محمد کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صلح حدیبیہ کے موقع پر ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی رائے کو قبول کرکے اس پر عمل کرنا، عورتوں کی عزت وتکریم کا زریں باب ہے، غرض کہ کون سے شعبہ ہائے حیات ہیں کہ اسلام نے عورت کو ان کے اپنے دائرے میں رہ کر کارہائے نمایاں انجام دینے کی اجازت نہیں دی ہے۔
جہاں تک عورتوں کے حقوق کا تعلق ہے تو اسلام نے عورتوں کو بحیثیت لڑکی یہ حق عطا کیا ہے کہ باپ اس کی پرورش وپرداخت کرے اور جس باپ نے تین لڑکیوں کی پرورش وپرداخت اور تعلیم وتربیت کی اس کو جنت کا مژدہ سنایا گیا ہے (ابوداود: 4481) ، جس بھائی نے اپنی دو بہنوں کی پرورش وپرداخت کی وہ بھی جنت کا مستحق ہے (حوالہ مذکور)، باپ یا بھائی یا کوئی بھی قریبی رشتہ دار ولی بالغ لڑکی کی مرضی کے بغیر دوسری جگہ اس کی شادی نہیں کرسکتا، (بخاری: 4741) ، وہ بھی اپنی پسند کا حق مہر لے کر، (النساء: 4)، بحیثیت بیوی اسلام نے عورت کو گھر کی ملکہ اور اس کے شوہر کو کائنات کا بہترین انسان اس وقت قرار دیا ہے جب وہ بیوی کے ساتھ بہتر شوہر ثابت ہو (ترمذی: 3830، ابن ماجہ: 1967) ، بحیثیت ماں عورتوں کے قدموں تلے جنت ہونے کی بشارت دی گئی ہے (نسائی: 3053) ، اور بحیثیت ایک عام عورت ہونے کے عورتیں مردوں کی مثل ہیں (ابوداود: 204) ، عورت اور مرد میں چند مخصوص مسائل کو چھوڑ کر کوئی فرق وامتیاز نہیں، وہ بھی عورتوں کی عفت وعصمت کے مفادات اور جسمانی ساخت کے پیش نظر ہیں، مثلا حجاب ، سفر میں محرم کی معیت کی شرط وغیرہ ، تاکہ عورت کسی درندہ صفت انسان کے جنسی ہوس کی بھینٹ نہ چڑھ جائے۔ اور وہ بھی اسلام کے عورت پر رحم وشفقت کی علامت کے طور پرہے، (مسند احمد: 12300) ، اسلام نے عورت کو ماں ، باپ، شوہر، بیٹے اور بھائی کی جائیداد میں وراثت کا حق دار بنایا ہے، کائنات کے پورے تاریخی ادوار میں اسلام ہی نے سب سے پہلے عورتوں کے حقوق کی آواز بلند کی ہےاور ان کو ان کا حق دیا ہے۔ یہ ہے وہ عزت و تکریم اورمقام ومرتبہ جو اسلام نے عورت کو دی جس کی مثال نہ کسی اور مذہب میں اور نہ ہی کسی قانون میں مل سکتی ہے ۔عورتوں کی ذلت ورسوائی، بے وقعتی وناقدری اور زبوں حالی وکسمپرسی کی حالت زمانہ جاہلیت میں اور آج کے نام نہاد روشن اور ماڈرن جاہلیت میں دیکھنا ہو تو ذیل کا بیان نہایت غور سے پڑھئے ان شاء اللہ پوری تسلی ہوجائے گی:
زمانہ جاہلیت میں عورت پوری دنیا میں عموما اور عرب معاشرہ میں خصوصا نہایت سخت آزمائشی دور سے گزر رہی تھی، عرب سوسائٹی میں لڑکیوں کو زندہ در گور کردیا جاتا تھا، اگر لڑکی زندہ در گور کئے جانے سے کسی طرح بچ جاتی تو اسے نہایت ذلت آمیز زندگی گزارنی پڑتی تھی، حالت عدت وفات میں بیوہ عورت کو ایک سال کے لئے الگ کمرے میں بند کردیا جاتا، اسے غسل کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی اور جب وہ اس قید سے ایک سال کے بعد باہر آتی تو اس کی شرمگاہ ایسی بدبودار اور زہر آلود ہوجاتی کہ اگر اس کی غلاظت کو مینگنی یا پتھر سے پونچھ کر کسی بکری پر مل دیا جاتا تو اس کی زہرناکی سے بکری مرجاتی تھی، اس کو اپنے قریبی لوگوں کے ترکہ سے کوئی حصہ نہیں ملتا تھا، خواہ وہ کتنی ہی غربت ومفلسی کی زندگی نہ گزار رہی ہو، اس سے بھی دو قدم آگے وہ خود اپنے متوفی شوہر کے مال میراث کی طرح اس کے وارثین میں تقسیم کردی جاتی تھی، عورت کو ایذا دینے کی غرض سے شوہر دسیوں مرتبہ طلاق دیتا اور رجوع کرلیا کرتا تھا، طلاق کی کوئی حد بندی نہ تھی ، نیز جتنی مرضی ہوتی دسیوں عورتوں کو بلا تحدید اپنی زوجیت میں رکھتا تھا اور جانوروں کی طرح استعمال کرتا تھا۔ جاہلیت میں عورت کی جانوروں اور تجارتی سامانوں کی طرح بلکہ اس سے بھی بدتر بازاروں میں خریدوفروخت ہوتی تھی۔
بر صغیر ہند میں عورتوں کی اس سے بھی زیادہ بری حالت تھی، عورت کو اقرباء کے میراث میں کوئی حق نہ تھا اور نہ آج جدید دور میں ہے، قدیم ہندوستانی قوانین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ وبائیں اور موت، جہنم اور آگ اورسانپوں کا زہر عورت سے بدرجہا بہتر ہے،اسے شوہر کی درازی عمر کے لئے ہر سال 36 گھنٹوں کا برت (روزہ) رکھنا پڑتا ہے، شوہر کے مرجانے پر اسے اس کی چتا میں ستی (جل جانا) ہوجانا پڑتا تھا، سن 1829ء میں ہندو سماج کے عظیم مصلح راجہ رام موہن رائے کی کوششوں سے قانونا یہ رسم ممنوع قرار دیئے جانے کے بعد آج بھی گاہے بگاہے اس رسم کے احیاء کی بات روپ کنور کی شکل میں عملا دکھائی دیتی ہے، اب جو عورت شوہر کی چتا پر ستی نہیں ہوتی ، اسے ہندو معاشرہ میں آج بھی ڈائن اور چڑیل سمجھاجاتا ہے اور دوسری شادی کرنا تو بہت دور کی بات ہے کبھی اپنے دل میں اس کا خیال بھی نہیں لاسکتی اور بسا آرزو کہ خاک شد کے مصداق بقیہ زندگی ذلت وکسمپرسی کے ساتھ اپنے سینے میں تمناؤں کو دفن کئے موت کی نیند سوجاتی ہے۔
عصر حاضر میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ مہذب اور ترقی یافتہ کہلانے والا مذہب عیسائیت کے عقیدہ کے مطابق عورت تمام گناہوں کا سر چشمہ اور ساری برائیوں اور فسق وفجور کی جڑ ہے، عورت ایسی ناپاک جنس ہے کہ اس سے اجتناب ضروری ہے، عورت خواہ ماں یا بہن جیسی پاکیزہ رشتہ دار کیوں نہ ہو تمام نیک اعمال کو تباہ وبرباد کردیتی ہے، بلکہ رومن ( اٹلی ) کے جدت پسندوںنے تو یہ قانون پاس کیا ہے کہ عورت مرد کے تابع رہتے ہوۓ اس کی غلام ہے اوراس کےمطلقا کوئی حقوق نہیں۔
اٹلی ہی میں ایک بڑے اجتماع میں عورت کے متعلق بحث وتمحیص کے بعد یہ پاس کیا گیاکہ یہ ایک ایسا حادثہ ہے جسے کچھ بھی اہمیت حاصل نہیں ، اور عورت اخروی زندگی کی وارثنہیں بنےگی اور یہ کہ عورت پلید اور نجس ہے ۔
یہودیت میں یہودی عورت کا کیا حال تھا اس کا بھی ہم جائزہ لیتے ہیں ، یہودیوں کی مقدس کتاب"عہد قدیم"میں لاکھ تحریف وتبدیل کے باوجود آج بھیمندرجہ ذیل بات موجود ہے :
"میں اور میرا دل حکمت وعقل کے علم اوراسے حاصل اورتلاش کرنے کے لیے گھوما پھرا تاکہ میں شرکو جو کہ جہالت ہے اورحماقت کوجو کہ جنوں ہے، معلوم کرسکوں ، تومیں نے موت کوپایاعورت جو کہ کھڑکی اوراس کادل تسمہ اوراس کے ہاتھ بیڑیاں ہیں ۔ سفر الجامعۃ الاصحاح ( 7 : 25 - 26 ) ۔
یہ تومعلوم ہی ہے کہ عہد قدیم پریہودی اورعیسائی دونوں کا ایمان ہے اور وہ اسےمقدس سمجھتے ہیں ۔
زمانہ قدیم میں عورت کا یہ حال تھا اورموجودہ و ماضی قریب کےدورمیں عورت کو کیا کچھ حاصل تھا اس کی وضاحت مندرجہ ذیل واقعات کرتے ہیں :
ڈنمارک کا ایک مصنف (wieth kordsten) عورت کے بارے میں کیتھولک چرچ کےنقطہنظر کی وضاحت کرتے ہوۓ کہتا ہے :
"دوروسطی میں یورپی عورت کا بہت ہی کم خیال رکھا جاتا تھا اس لئے کہ کیتھولکچرچ کےمذہب میں عورت دوسرے درجہ کی مخلوق شمارہوتی ہے"۔
سن 586 عیسوی کو فرانس میں عورت کے بارے میں ایک کانفرنس منعقد کی گئی جسمیں اس بات پرغوروخوضکیا گیا کہ آیا عورت انسان شمار ہوتی ہے یا نہیں ؟
مذکورہ کانفرنس میں بحث وتمحیص کے بعد یہ قرار پایا کہ عورت انسان تو ہے لیکن وہ مردکی خدمت کے لئے پیدا کی گئ ہے ۔
فرانسیسی قانون کی شق نمبر (217217 ) میں مندرجہ ذیل بات کہی گئ ہے :
"شادی شدہ عورت ( اگرچہ اس کی شادی اس بنیاد پرہوئی ہو کہ اس کی اوراس کے خاوندکی ملکیت علیحدہ ہی رہے گی) کا کسی کوکچھ ہبہ کرنا جائز نہیں ہے اورنہ اس کے لئے اپنیملکیت کومنتقل کرنا روا ہے اورنہ ہی اسے کسی کے پاس رہن رکھنا درست ، اورنہ ہی وہ عوض یا بغیرعوضاپنے خاوند کی معاہدے میں شرکت کے بغیر یا پھر شوہر کی لکھی ہوئیموافقت کےبغیر مالک بن سکتی ہے"۔
انگلینڈ میں ہنری ہشتم نے انگریز عورت پرکتاب مقدس پڑھنا حرام قرار دیا تھا ، حتیکہ ( 1850 1850) عیسویتک عورتوں کوشہری ہی شمار نہیں کیا گیا ، اوران کے لئے( 1882)عیسویتک کوئی کسی قسم کے حقوق شخصی نہیں تھے ۔ سلسلۃ مقارنۃالادیان ،تالیف احمد شلبی جلد ( 333) صفحہ (210 -213213 ) ۔
دورحاضرمیں یورپ و امریکہ اور دوسرے صنعتی ممالک میں عورت ایک ایسی گری پڑیمخلوق ہے جوصرف اورصرف تجارتی اشیاء کی خرید وفروخت کےلیے استعمال ہوتی ہے ، وہاشتہاری کمپنیوں کا جز ء لاینفک ہے ، بلکہ یہاں حالت یہاں تک جا پہنچی ہے کہ اس کےکپڑے تک اتروا دیئے گۓ ہیں اوراس کے جسم کوتجارتی اشیاء کے لیے مباح کرلیا گیا ہے،اورمردوں نے اپنے بناۓ ہوۓ قانون سے اسے اپنے لئے ہر جگہ پراس کے ساتھ کھیلنا ہیمقصد بنا لیا ہے ۔ (الاسلام اصولہ ومبادئہ: ڈاکٹر محمد السحیم) ۔
عصر حاضر میں عورت جب گھر سے نکل کر مردوں کے شانہ بشانہ کام کرنا شروع کیا تو اسے ہوٹلوں میں ریسیپشنمیں، ہسپتالوں میں بطور نرس، ہوائی جہازوں میں بحیثیت ایئر ہوسٹس، مخلوط تعلیم گاہوں میں بحیثیت طالبات اور ٹیچرس، تھیٹروں میں بحیثیت اداکارہ یا گلوکارہ، مختلف ذرائع ابلاغ میں بحیثیت اناؤنسر بٹھادیا گیا، جہاں وہ اپنی خوبروئی ، دلفریب ادا اور شیریں آواز سے لوگوں کی ہوس نگاہ کا مرکز بن گئی، فحش رسائل واخبارات میں ان کی ہیجان انگیز عریاں تصویر چسپاں کرکے مارکیٹنگ کا وسیلہ بنایا گیا تو تاجروں اور صنعتی کمپنیوں نے اسی نوعیت کی فحش تصویر اپنے سامان تجارت اور مصنوعات میں آویزاں کرکے انہیں فروغ دینے کا ذریعہ بنا لیا۔یہی نہیں بلکہ جس کی نظر آج کی فحاشی وعریانیت پر ہے وہ اچھی طرح واقف ہے کہ مس ورلڈ، مس یونیورس اور مس ارتھ کے انتخابی مراحل میں عورت کے ساتھ کیا کھلواڑ نہیں ہوتا ، نیز فلموں میں اداکاری کے نام پر اور انٹرنیٹ کے مخصوص سائٹ پر اس کی عریانیت کے کون سے رسواکن مناظر ہیں جو پیش نہیں کئے جاتے، اگر یہی عورت کی آزادی اور اس کی عزت وتکریم اور اس کے حقوق پانے کی علامت ہے تو انسانیت کو اپنے پیمانہ عزت وآنر پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔
یاد رہے کہ یہ سب معاملہ عورت کے ساتھ اس وقت تک رکھا جاتا ہے جب تک اس میں مردوں کی کشش ، ابھرتی جوانی کی بہار ، دل ربا دوشیزگی کا جوبن اور شباب وکباب کی رونق رہتی ہے ، لیکن جب اس کے جوبن میں پژمردگی آجاتی ہے، اس کی کشش میں گھن لگ جاتا ہے ، بازاروں میں اس کی قیمت لگنا بند ہوجاتا ہے، اس کے ڈیمانڈ کو دیمک چاٹ جاتی ہے اور اس کی ساری مادی چمک دمک ماند پڑجاتی ہے تو یہ کافرمعاشرہ اس سے منہ موڑ لیتا ہے ،وہ ادارے جہاں اس نے جوہر کمال دکھائے تھے اس کوچھوڑ دینے میں عافیت سمجھتے ہیںاوروہ اکیلی یا تو اپنے گھر میں کسمپرسی کی زندگی گزارتی ہے یا پھر پاگل خانوں میں۔
یہ ہے آزادی نسواں کی موجودہ کڑوی حقیقت اور یہ ہے اس کا حتمی برا انجام ، آزادی نسواں پر روشنی ڈالتے ہوئے ایک مغربی مصنف یوں رقمطراز ہے:
"وہ نظام جس میں عورت کے میدان عمل میں اترنے اور کارخانوں میں کام کرنے کو ضروری قرار دیا گیا، اس سے ملک کو چاہے کتنی بھی دولت وثروت مہیا ہو جائے، مگر یہ بات یقینی ہے کہ اس سے گھریلو زندگی کی عمارت زمیں بوس ہو کر رہ جاتی ہے، کیونکہ اس نظام نے گھر کے ڈھانچہ پر حملہ کرکے خاندانی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور معاشرتی تعلقات وروابط کے سلسلہ کو درہم برہم کر دیا ہے"۔
ایک دوسری مغربی مصنفہ جو کہ پیشہ سے ڈاکٹر بھی ہے، وہ اپنے مغربی معاشرے کے اندر رونما ہونے والے بحرانوں کا تذکرہ کرتے ہوۓ یوں خامہ فرسا ہے:
"خاندانی زندگی میں رونما ہو نے والے بحرانوں کا سبب اور معاشرے میں جرائم کے بکثرت بڑھ جانے کا راز اس بات میں پوشیدہ ہے کہ عورت نے گھر کی چار دیواری کو الوداع کہا، تاکہ خاندان کی آمدنی دوگنی ہو" 0000 اور واقعی آمدنی تو بہت بڑھ گئی مگر اس سے معیار اخلاق انتہائی نچلی سطح تک گر گیا، تجربات نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ آج نسل نو جس بحران میں مبتلا ہے، اسے اس سے بچانے اور نکالنے کا صرف ایک ہی راستہ اور طریقہ ہے اور وہ طریقہ یہ ہے کہ عورت کو دوبارہ اس کے اصل مقام یعنی گھر میں واپس لایا جاۓ"۔ (خطبہ حرم، شیخ حسین بن عبد العزیز آل الشیخ بتاریخ 30/8/2002 ء مطابق 21/6/1423ھ) ۔
یہ تو مغربی عورت کو ملی آزادی اور اس کی حالت زار کی ایک جھلک ہے، مسلم عورت کو مسٹر پیر کریٹس اس طرح خراج پیش کرتا ہے:
"محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے برقعہ پوش مسلم خواتین کو ہر شعبہ زندگی میں وہ حقوق حاصل ہوگئے ہیں جو بیسویں صدی میں ایک تعلیم یافتہ عیسائی عورت کو حاصل نہیں"۔ (اعتراف حق ص 209)
یہاں پہنچ کر بے ساختہ علامہ اقبال کا یہ مصرعہ زبان پر آجاتا ہے:
اس راز کو عورت کی بصیرت ہی کرے فاش
مجبور ہیں ، معذور ہیں، مردان خرد مند
کیا چیز ہے آرائش وقیمت میں زیادہ
آزادی نسواں کہ زمرد کا گلو بند
یہ سب حقائق ونتائج دیکھ لینے کے بعد کیا کسی مسلمان عورت کو مغربی تہذیب وثقافت اور اس کی چمک دمک کی طرف حسرت بھری اور للچائی نگاہوں سے دیکھنے کی ضرورت باقی رہ جاتی ہے؟؟؟
CHRISTIANITY AND ISLAM
CHRISTIANITY AND ISLAM
by Gary Miller:
The bible is a collection of writings by many different authors. The Quran is a dictation. The speaker in the Quran -in the first person- is God talking directly to man. In the bible you have many men writing about God and you have in some places the word of God speaking to men and still in other places you have some men simply writing about history. The bible consists of 66 small books. About 18 of them begin by saying: This is the revelation God gave to so and so… The rest make no claim as to their origin. You have for example the beginning of the book of Jonah which begins by saying: The word of the Lord came to Jonah the son of Elmitaeh saying… quote and then it continues for two or three pages.
If you compare that to one of the four accounts of the life of Jesus, Luke begins by saying: “many people have written about this man, it seems fitting for me to do so too”. That is all… no claim of saying “ these words were given to me by God here they are for you it is a revelation”, there is no mention of this.
The bible does not contain self reference, that is the word bible is not in the bible. Nowhere does the bible talk about itself. Some scriptures are sometimes pointed to in the bible, say: here where it talks about itself, but we have to look closely. 2nd Timothy 3:16 is the favourite which reads: “All scripture is inspired of God” and there are those who would say, here is where the bible it talks about itself, it says it is inspired of God, all of it. But if you read the whole sentence, you read that this was a letter wrote by Paul to Timothy and the entire sentence says to Timothy: “Since you were a young man you have studied the holy scriptures, all scriptures inspired by God” and so on… When Timothy was a young man the New Testament did not exist, the only thing that stems he was talking about are scriptures –which are only a portion of the bible- from before that time. It could not have meant the whole bible.
There is at the end of the bible a verse which says: “Let anyone who takes away from this book or adds to this book be cursed”. This to is sometimes pointed to me saying: Here is where it sums itself as a whole. But look again and you will see that when it says: Let no one change this book, it is talking about that last book, number 66, the book of revelation. It has too, because any reference will tell you that the book of revelation was written before certain other parts of the bible were written. It happens today to be stacked at the end, but there are other parts that came after, so it can not be referring to the entire book.
It is an extreme position held only by some Christian groups that the bible –in its entirety- cover to cover is the revealed word of God in every word, but they do a clever thing when they mention this, or make this claim. They will say that the bible in its entirety is the word of God; in-errant (no mistakes) in the original writings. So if you go to the bible and point out some mistakes that are in it you are going to be told :Those mistakes were not there in the original manuscript, they have crept in so that we see them there today. They are going on problem in that position. There is a verse in the bible Isiah 40:8 which in fact is so well known that some bibles printed it on the inside front cover as an introduction and it says : “ The grass weathers, the flower fades, but the word of our God stands forever”. Here is a claim in the bible that the word of God WILL stand forever, it will not be corrupted, it wont be lost. So if today you find a mistake in the bible you have two choices. Either that promise was false that when God said my word wont fade away, he was mistaken, or the portion which has the mistake in it was not a part of the word of God in the first place, because the promise was that it would be safeguarded, it would not be corrupted.
I have suggested many times that there are mistakes in the bible and the accusation comes back very quickly: Show me one. Well there are hundreds. If you want to be specific I can mention few. You have for example at 2nd Samuel 10:18 a description of a war fought by David saying that he killed 7000 men and that he also killed 40000 men on horsebacks. In 1st Chronicles 19 it mentions the same episode saying that he killed 70000 men and the 40000 men were not on horsebacks, they were on foot. The point be what is the difference between the pedestrian and not is very fundamental.
Mathew 27:5 says that Judas Iscariot when he died he hung himself. Acts 1 says that no he jumped off a cliff head first.
If you study logic very soon you will come in your course to what they call an “un-decidable propositions” or “meaningless sentences” or statements that can not be decided because there is no contextual false. One of the classic examples sited is something called the Effeminites paradox. This man was Cretan and he said “Cretans always lie”, now was that statement true or false? If he was a Cretan and he says that they always lie is he lying? If he is not lying then he is telling the truth then the Cretans don’t always lie!! You see it can not be true and it can not be false, the statement turn back on itself. It is like saying “What I am telling you right now is a lie” would you believe that or not? You see the statement has no true content. It can not be true and it can not be false. If it is true it is always false. If it is false it is also true.
Well in the bible at Titus 1:12 the writer is Paul and he is talking about the Cretans. He says that one of their own men – a prophet- said “Cretans always lie” and he says that what this man says is true. It is a small mistake, but the point is that it is a human mistake, you don’t find that if you carefully examine the true content of that statement. It can not be a true statement.
Now I come back to the Quran, and as I mentioned the speaker in the Quran is -in the first person- is God. The book claims throughout that it is the word of God. It names itself 70 times as the Quran. It talks about its own contents. It has self reference. The Quran states in the first Sura after Fateha that “This is the book, there is no doubt in it, it is a guidance for those who are conscious of God” and so on and so on… It begine that way and continues that way stressing that. And there is one very amazing statement in the Quran when you come to the fourth Surah 82nd Ayah which says to those who say Quran is something else than the word of God. It challenges them saying: “Have they not considered the Quran, if it came from someone other than God they will find in it many mistakes”. Some of you are students, would you dare to hand in a paper after you completed a research work or something at the bottom you put down there “You wont find mistakes in this”. Would you dare to challenge your professor that way?. Well the Quran does that. It is telling: If you really think you know where this came from then starts looking for mistakes because you wont find any. Another interesting thing the Quran does is that it quotes all its critics. There has never -in hundreds of years- ever been some suggestion as to where that book came from but that the Quran does not already mention that objection and reply to it. Many time you will find the Ayah saying something like: Do they say such and such and so, say to them such and such and so. In every case there is a reply. More than that the Quran claims that the evidence of its origin is in itself, and that if you look at this book you will be convinced.
So the difference in Christianity and Islam comes down to a difference of authority and appeal to authority. The Christian wants to appeal to the bible and the Muslim wants to appeal to the Quran. You can not stop by saying: this is true because me book say it is, and somebody else would say something else is true because my book says differently, you can not stop at that point, and the Quran does not. The Chrisitans may point to some words that it is recorded Jesus said and say this proves my point. But the Muslim does not simply open his book and say: no no the Quran says this, because the Quran does not simply deny something the bible says and say something else instead. The Quran takes the form of a rebuttal, it is a guidance as the opining says (Huda lil mutakeen). So that for every suggestion that the Christian may say: my bible say such and such, the Quran will not simply say: no that is not true, it will say: do they say such and such then ask them such and such. You have for example the Ayah that compares Jessus and Adam. There are those who may say that Jesus must have been God (Son of God) because he had no father. He had a woman who was his mother, but there was no human father. It was God that gave him life, so he must have been God’s son. The Quran reminds the Christian in one short sentence to remember Adam who was his father and in fact who was his mother? He did not have a father either and in fact he did not have a mother, but what does that make him? So that the likeness of Adam is the likeness of Jesus, they were nothing and then they became something, that they worship God.
So that the Quran does not demand belief, the Quran invites belief, and here is the fundamental difference. It is not simply delivered as: here is what you are to believe, but throughout the Quran the statements are always: Have you O man thought of such and such, have you considered so and so. It is always an invitation for you to look at the evidence; now what you believe.
The citation of the bible very often takes the form of what is called in argumentation: Special pleading. Special pleading is when implications are not consistent. When you take something and you say: well that musy mean this, but you don’t use the same argument to apply it to something else. To give an example, I have seen it in publications many times, stating that Jesus must have been God because he worked miracles. In other hand we know very well that there is no miracle ever worked by Jesus that is not also recorded in the old testament as worked by one of the prophets. You had among others Elijah, who is reported to have cured the leper, raise the dead boy to life and to have multiplies bread for the people to eat, three of the most favourite miracles sited by Jesus. If the miracles worked by Jesus proved he was God, why don’t they prove Elijah was God? This is Special Pleading, if you see what I mean. The implications are not consistent. If this implies that then in that case it must also imply the same thing. We have those who would say Jesus was God because he was taken up in the heaven. But the bible also says the a certain Einah did not die he was taken up into the heaven by God. Whether it is true or not, who knows, but the point is if Jesus being taken up proves he is God, why does not it prove Einah was God? The same thing happened to him.
I wrote to a man one time, who wrote a book about Christianity and I had some of the objections I mentioned to you now. And his reply to me was that I am making matters difficult to myself, that there are portions in the bible that are crystal clear and that there are portions that are difficult, and that my problem was that I am looking at the difficult part instead of the clear parts. The problem is that this is an exercise in self deception, why are some parts clear and some parts difficult? It is because somebody decided what this CLEARLY means, now that makes this very difficult. To give you an example, John chapter 14 a certain man said to Jesus: Show us God, and Jesus said: if you have seen me you have seen God. Now without reading on the Christian will say: see Jesus claimed to be God, he said if you have seen me you have seen God. If that is crystal clear then you have a difficult portion when you go back just a few pages to Chapter 5 when another man came to Jesus and said show us God and he said you have never seen God you have never heard his voice. Now what did he mean there if on the other occasion he meant that he was God? Obviously you have made matters difficult by deciding what the first one meant. If you read on in Chapter 14 you will see what he went on to say. He was saying the closest you are going to seeing God are the works you see me doing.
It is a fact that the words “son of God” are not found on the lips of Jesus anywhere in the first three Gospel accounts, he was always calling himself the Son of Man. And it is a curious form of reasoning that I have seen so often that it is established from bible that he claimed to be God because (look how the Jews reacted). They will say for example he said such and such and the Jews said he is blaspheming, he claimed to be God and they tried to stone him. So they argue that he must have been claiming to be God because look!! The Jews tried to kill him. They said that’s what he was claiming. But the interesting thing is that all the evidence is then built on the fact that a person is saying: I believed that Jesus was the son of God because the Jews who killed him said that’s what he used to say! His enemies used to say that, so he must have said it, this is what it amounts to. In other hand we have the words of Jesus saying he would keep the law, the law of Moses and we have the statement in the bible, why did the Jews kill him? Because he broke the law of Moses. Obviously the Jews misunderstood him, if he promised he would keep the law, but they killed him because he broke the law, they must have misunderstood him, or lied about him.
When I talk about the bible and quote various verses here and there I am often accused of putting things out of context, to say you have lifted something out of what it was talking about and given it a meaning. I don’t want to respond to the accusation as such, but it doesn’t seem to occur to many people that perhaps those who wrote portions of the bible in the first place were guilty of the same thing. Maybe they –some of those writers- believed a certain thing and in order to prove it quoted from their scriptures –the old testament, the Hebrew writings—quoted out of context to prove their point. There are examples of that kind of thing. In Mathew 2 it said that a king wanted to kill the young child Jesus so he with his family went to Egypt and they stayed there until that king died, and then they came back. When the writer of Mathew, whoever he was, because the name Mathew wont be found in the book of Mathew; when he described this event saying that he came back out of Egypt, he said: “ This was to fulfil a prophecy which is written” and then he quotes Hosea chapter 11 “Out of Egypt I called my Son”. So he said because Jesus went to Egypt and then came back out of Egypt and we have this passage in the Hebrew scriptures “out of Egypt I called my son” Jesus must have been the son of God. If you look and see what he was quoting, Hosea 11:1 he quotes the second half of a complete sentence, the complete sentence reads: “When Israel was young I loved him and out of Egypt I called my son”. Israel the nation was considered as the son of God. Moses was told to go to Pharoh and say to him: if you touch that nation of people, you touch my son; warning him, warning Pharoan: don’t touch that nation, calling the nation “the son of God”. So that this is the only thing talked about in Hosea 11:1. “Out of Egypt I called my son” can only refer to the nation of Israel. I mentioned this point some months ago here in another talk, to which a young lady with us objected that Israel is a symbolic name for Jesus. You will have a hard time finding that anywhere in the bible because it isn’t there. You can take an index of the bible and lookup the word “Israel” everywhere the word occurs and you will find no where in any place that you can connect the word Israel with Jesus. But never mind suppose it is true, read on, the second verse says “and after that he kept on worshipping Bal”, because this is what the Israelites were guilty of, very often they kept falling back into Idol worshipping. So if that “Israel” really meant Jesus and it means that Jesus is the son of God that came out of Egypt they must also mean that Jesus from time to time used to bow down to that idol Bal. You have to be consistent, and follow through on what it says. So the point is whoever wrote Mathew and chapter2 was trying to prove a point by quoting something out of context, and he undid himself, because if you follow through on it, it can not be so.
Now I can come back to the claim the Quran makes that it has internal evidence of its origin. There are many many ways that you can look at this. As one example, if I single out somebody here and say: you know I know your father, he is going to doubt that, he has never seen me with his father. He would say, how does he look like, is he tall short does he wear glasses? and so on, and if I give him the right answers pretty soon he will get convinced, “oh yes you did meet him”. If you apply the same kind of thinking when you look at the Quran, here is a book that says it came from the one who was there when the universe began. So you should be asking that one: so tell me something that proves it. Tell me something that shows me you must have been there when the universe was beginning. You will find in two different Ayats the statement that all the creation began from a single point and from this point it is expanding. In 1978 they gave the noble prize to two people who proved that that’s the case. It is the big bang origin of the universe. It was determined by the large radio receivers that they have for the telephone companies which were sensitive enough to pick up the transmissions from satellites and it kept finding background noise that they could not account for. Until the only explanation came to be, it is the left over energy from that original explosion which fits in exactly as would be predicted by the mathematical calculation of what would be this thing if the universe began from a single point and exploded outwards. So they confirmed that, but in 1978. Centuries before that here is the Quran saying the heavens and the earth in the beginning they were one piece and split and says in another Ayah : “of the heavens we are expanding it”.
Let me tell you about a personal investigation, it occurred to me that there are a number of things you can find in the Quran that gave evidence to its origin –internal evidence- . If the Quran is dictated from a perfect individual; it originates wth God, then there should not be any wasted space, it should be very meaningful. There should be nothing that we don’t need that you can cut off, and it should not be missing anything. And so that everything in there should really be there for a specific purpose. And I got to thinking about the Ayah which I mentioned before, it says, the likeness of Jesus is the likeness of Adam. It an equation, it uses the arabic word (mithel), it says Jesus, Adam, equal. You go to the index of the Quran, you look up the name ISA it is in the Quran 25 times, you lookup the name Adam it is there 25 times. They are equal, through scattered references but 25 of each. Follow that through and you will find that in the Quran there are 8 places were an Ayah says something is like something else, using this (Mithel), you will find in every case and take both sides of it whatever that word is look it up in the index and it will be lets say 110 times and lookup the other word and it will be said to be equal to the same 110. That is quite a project of co-ordination if you try to write a book that way yourself. So that everywhere you happened to mention that such and such is like such and such that then you check your index, filing system, or your IBM punch cards or whatever, to make sure that in this whole book you mentioned them both the same number of times. But that’s what you will find in the Quran.
What I am talking about is built on a thing that is called in logic use and mention of a word. When you use a word, you are using its meaning. When you mention a word, you are talking about the symbol without the meaning. For example, if I say Toronto is a big city I used the word Toronto as I meant this place Toronto is a big city. But if I say to you TORONTO has 7 letters, I am not talking about this place Toronto, I am talking about this word TORNOTO. So that revelation is above reasoning but it is not above reason. That is to say we are more up not to find in the Quran something that is unreasonable, but we may find something that we would have never figured out for ourselves.
The author of this sentence said if this book came from someone besides God then you will find in it many (IKHTILAFAN) (inconsistencies). The word IKHTILAF is found many times in the Quran. But the word IKHTALAFAN is only found once in the Quran. So there are not many IKHTILAFAN in the Quran, there is only one (where the sentence is mentioned). So you see how things are put together perfectly. It has been suggested to mankind: find a mistake. Man could not get hold of a mistake, and he is very clever, because this sentence could also mean : Find many IKHTILAFAN and so he quickly goes to the index to see if he can find MANY of them and there is only ONE... Sorry clever person!!
by Gary Miller:
The bible is a collection of writings by many different authors. The Quran is a dictation. The speaker in the Quran -in the first person- is God talking directly to man. In the bible you have many men writing about God and you have in some places the word of God speaking to men and still in other places you have some men simply writing about history. The bible consists of 66 small books. About 18 of them begin by saying: This is the revelation God gave to so and so… The rest make no claim as to their origin. You have for example the beginning of the book of Jonah which begins by saying: The word of the Lord came to Jonah the son of Elmitaeh saying… quote and then it continues for two or three pages.
If you compare that to one of the four accounts of the life of Jesus, Luke begins by saying: “many people have written about this man, it seems fitting for me to do so too”. That is all… no claim of saying “ these words were given to me by God here they are for you it is a revelation”, there is no mention of this.
The bible does not contain self reference, that is the word bible is not in the bible. Nowhere does the bible talk about itself. Some scriptures are sometimes pointed to in the bible, say: here where it talks about itself, but we have to look closely. 2nd Timothy 3:16 is the favourite which reads: “All scripture is inspired of God” and there are those who would say, here is where the bible it talks about itself, it says it is inspired of God, all of it. But if you read the whole sentence, you read that this was a letter wrote by Paul to Timothy and the entire sentence says to Timothy: “Since you were a young man you have studied the holy scriptures, all scriptures inspired by God” and so on… When Timothy was a young man the New Testament did not exist, the only thing that stems he was talking about are scriptures –which are only a portion of the bible- from before that time. It could not have meant the whole bible.
There is at the end of the bible a verse which says: “Let anyone who takes away from this book or adds to this book be cursed”. This to is sometimes pointed to me saying: Here is where it sums itself as a whole. But look again and you will see that when it says: Let no one change this book, it is talking about that last book, number 66, the book of revelation. It has too, because any reference will tell you that the book of revelation was written before certain other parts of the bible were written. It happens today to be stacked at the end, but there are other parts that came after, so it can not be referring to the entire book.
It is an extreme position held only by some Christian groups that the bible –in its entirety- cover to cover is the revealed word of God in every word, but they do a clever thing when they mention this, or make this claim. They will say that the bible in its entirety is the word of God; in-errant (no mistakes) in the original writings. So if you go to the bible and point out some mistakes that are in it you are going to be told :Those mistakes were not there in the original manuscript, they have crept in so that we see them there today. They are going on problem in that position. There is a verse in the bible Isiah 40:8 which in fact is so well known that some bibles printed it on the inside front cover as an introduction and it says : “ The grass weathers, the flower fades, but the word of our God stands forever”. Here is a claim in the bible that the word of God WILL stand forever, it will not be corrupted, it wont be lost. So if today you find a mistake in the bible you have two choices. Either that promise was false that when God said my word wont fade away, he was mistaken, or the portion which has the mistake in it was not a part of the word of God in the first place, because the promise was that it would be safeguarded, it would not be corrupted.
I have suggested many times that there are mistakes in the bible and the accusation comes back very quickly: Show me one. Well there are hundreds. If you want to be specific I can mention few. You have for example at 2nd Samuel 10:18 a description of a war fought by David saying that he killed 7000 men and that he also killed 40000 men on horsebacks. In 1st Chronicles 19 it mentions the same episode saying that he killed 70000 men and the 40000 men were not on horsebacks, they were on foot. The point be what is the difference between the pedestrian and not is very fundamental.
Mathew 27:5 says that Judas Iscariot when he died he hung himself. Acts 1 says that no he jumped off a cliff head first.
If you study logic very soon you will come in your course to what they call an “un-decidable propositions” or “meaningless sentences” or statements that can not be decided because there is no contextual false. One of the classic examples sited is something called the Effeminites paradox. This man was Cretan and he said “Cretans always lie”, now was that statement true or false? If he was a Cretan and he says that they always lie is he lying? If he is not lying then he is telling the truth then the Cretans don’t always lie!! You see it can not be true and it can not be false, the statement turn back on itself. It is like saying “What I am telling you right now is a lie” would you believe that or not? You see the statement has no true content. It can not be true and it can not be false. If it is true it is always false. If it is false it is also true.
Well in the bible at Titus 1:12 the writer is Paul and he is talking about the Cretans. He says that one of their own men – a prophet- said “Cretans always lie” and he says that what this man says is true. It is a small mistake, but the point is that it is a human mistake, you don’t find that if you carefully examine the true content of that statement. It can not be a true statement.
Now I come back to the Quran, and as I mentioned the speaker in the Quran is -in the first person- is God. The book claims throughout that it is the word of God. It names itself 70 times as the Quran. It talks about its own contents. It has self reference. The Quran states in the first Sura after Fateha that “This is the book, there is no doubt in it, it is a guidance for those who are conscious of God” and so on and so on… It begine that way and continues that way stressing that. And there is one very amazing statement in the Quran when you come to the fourth Surah 82nd Ayah which says to those who say Quran is something else than the word of God. It challenges them saying: “Have they not considered the Quran, if it came from someone other than God they will find in it many mistakes”. Some of you are students, would you dare to hand in a paper after you completed a research work or something at the bottom you put down there “You wont find mistakes in this”. Would you dare to challenge your professor that way?. Well the Quran does that. It is telling: If you really think you know where this came from then starts looking for mistakes because you wont find any. Another interesting thing the Quran does is that it quotes all its critics. There has never -in hundreds of years- ever been some suggestion as to where that book came from but that the Quran does not already mention that objection and reply to it. Many time you will find the Ayah saying something like: Do they say such and such and so, say to them such and such and so. In every case there is a reply. More than that the Quran claims that the evidence of its origin is in itself, and that if you look at this book you will be convinced.
So the difference in Christianity and Islam comes down to a difference of authority and appeal to authority. The Christian wants to appeal to the bible and the Muslim wants to appeal to the Quran. You can not stop by saying: this is true because me book say it is, and somebody else would say something else is true because my book says differently, you can not stop at that point, and the Quran does not. The Chrisitans may point to some words that it is recorded Jesus said and say this proves my point. But the Muslim does not simply open his book and say: no no the Quran says this, because the Quran does not simply deny something the bible says and say something else instead. The Quran takes the form of a rebuttal, it is a guidance as the opining says (Huda lil mutakeen). So that for every suggestion that the Christian may say: my bible say such and such, the Quran will not simply say: no that is not true, it will say: do they say such and such then ask them such and such. You have for example the Ayah that compares Jessus and Adam. There are those who may say that Jesus must have been God (Son of God) because he had no father. He had a woman who was his mother, but there was no human father. It was God that gave him life, so he must have been God’s son. The Quran reminds the Christian in one short sentence to remember Adam who was his father and in fact who was his mother? He did not have a father either and in fact he did not have a mother, but what does that make him? So that the likeness of Adam is the likeness of Jesus, they were nothing and then they became something, that they worship God.
So that the Quran does not demand belief, the Quran invites belief, and here is the fundamental difference. It is not simply delivered as: here is what you are to believe, but throughout the Quran the statements are always: Have you O man thought of such and such, have you considered so and so. It is always an invitation for you to look at the evidence; now what you believe.
The citation of the bible very often takes the form of what is called in argumentation: Special pleading. Special pleading is when implications are not consistent. When you take something and you say: well that musy mean this, but you don’t use the same argument to apply it to something else. To give an example, I have seen it in publications many times, stating that Jesus must have been God because he worked miracles. In other hand we know very well that there is no miracle ever worked by Jesus that is not also recorded in the old testament as worked by one of the prophets. You had among others Elijah, who is reported to have cured the leper, raise the dead boy to life and to have multiplies bread for the people to eat, three of the most favourite miracles sited by Jesus. If the miracles worked by Jesus proved he was God, why don’t they prove Elijah was God? This is Special Pleading, if you see what I mean. The implications are not consistent. If this implies that then in that case it must also imply the same thing. We have those who would say Jesus was God because he was taken up in the heaven. But the bible also says the a certain Einah did not die he was taken up into the heaven by God. Whether it is true or not, who knows, but the point is if Jesus being taken up proves he is God, why does not it prove Einah was God? The same thing happened to him.
I wrote to a man one time, who wrote a book about Christianity and I had some of the objections I mentioned to you now. And his reply to me was that I am making matters difficult to myself, that there are portions in the bible that are crystal clear and that there are portions that are difficult, and that my problem was that I am looking at the difficult part instead of the clear parts. The problem is that this is an exercise in self deception, why are some parts clear and some parts difficult? It is because somebody decided what this CLEARLY means, now that makes this very difficult. To give you an example, John chapter 14 a certain man said to Jesus: Show us God, and Jesus said: if you have seen me you have seen God. Now without reading on the Christian will say: see Jesus claimed to be God, he said if you have seen me you have seen God. If that is crystal clear then you have a difficult portion when you go back just a few pages to Chapter 5 when another man came to Jesus and said show us God and he said you have never seen God you have never heard his voice. Now what did he mean there if on the other occasion he meant that he was God? Obviously you have made matters difficult by deciding what the first one meant. If you read on in Chapter 14 you will see what he went on to say. He was saying the closest you are going to seeing God are the works you see me doing.
It is a fact that the words “son of God” are not found on the lips of Jesus anywhere in the first three Gospel accounts, he was always calling himself the Son of Man. And it is a curious form of reasoning that I have seen so often that it is established from bible that he claimed to be God because (look how the Jews reacted). They will say for example he said such and such and the Jews said he is blaspheming, he claimed to be God and they tried to stone him. So they argue that he must have been claiming to be God because look!! The Jews tried to kill him. They said that’s what he was claiming. But the interesting thing is that all the evidence is then built on the fact that a person is saying: I believed that Jesus was the son of God because the Jews who killed him said that’s what he used to say! His enemies used to say that, so he must have said it, this is what it amounts to. In other hand we have the words of Jesus saying he would keep the law, the law of Moses and we have the statement in the bible, why did the Jews kill him? Because he broke the law of Moses. Obviously the Jews misunderstood him, if he promised he would keep the law, but they killed him because he broke the law, they must have misunderstood him, or lied about him.
When I talk about the bible and quote various verses here and there I am often accused of putting things out of context, to say you have lifted something out of what it was talking about and given it a meaning. I don’t want to respond to the accusation as such, but it doesn’t seem to occur to many people that perhaps those who wrote portions of the bible in the first place were guilty of the same thing. Maybe they –some of those writers- believed a certain thing and in order to prove it quoted from their scriptures –the old testament, the Hebrew writings—quoted out of context to prove their point. There are examples of that kind of thing. In Mathew 2 it said that a king wanted to kill the young child Jesus so he with his family went to Egypt and they stayed there until that king died, and then they came back. When the writer of Mathew, whoever he was, because the name Mathew wont be found in the book of Mathew; when he described this event saying that he came back out of Egypt, he said: “ This was to fulfil a prophecy which is written” and then he quotes Hosea chapter 11 “Out of Egypt I called my Son”. So he said because Jesus went to Egypt and then came back out of Egypt and we have this passage in the Hebrew scriptures “out of Egypt I called my son” Jesus must have been the son of God. If you look and see what he was quoting, Hosea 11:1 he quotes the second half of a complete sentence, the complete sentence reads: “When Israel was young I loved him and out of Egypt I called my son”. Israel the nation was considered as the son of God. Moses was told to go to Pharoh and say to him: if you touch that nation of people, you touch my son; warning him, warning Pharoan: don’t touch that nation, calling the nation “the son of God”. So that this is the only thing talked about in Hosea 11:1. “Out of Egypt I called my son” can only refer to the nation of Israel. I mentioned this point some months ago here in another talk, to which a young lady with us objected that Israel is a symbolic name for Jesus. You will have a hard time finding that anywhere in the bible because it isn’t there. You can take an index of the bible and lookup the word “Israel” everywhere the word occurs and you will find no where in any place that you can connect the word Israel with Jesus. But never mind suppose it is true, read on, the second verse says “and after that he kept on worshipping Bal”, because this is what the Israelites were guilty of, very often they kept falling back into Idol worshipping. So if that “Israel” really meant Jesus and it means that Jesus is the son of God that came out of Egypt they must also mean that Jesus from time to time used to bow down to that idol Bal. You have to be consistent, and follow through on what it says. So the point is whoever wrote Mathew and chapter2 was trying to prove a point by quoting something out of context, and he undid himself, because if you follow through on it, it can not be so.
Now I can come back to the claim the Quran makes that it has internal evidence of its origin. There are many many ways that you can look at this. As one example, if I single out somebody here and say: you know I know your father, he is going to doubt that, he has never seen me with his father. He would say, how does he look like, is he tall short does he wear glasses? and so on, and if I give him the right answers pretty soon he will get convinced, “oh yes you did meet him”. If you apply the same kind of thinking when you look at the Quran, here is a book that says it came from the one who was there when the universe began. So you should be asking that one: so tell me something that proves it. Tell me something that shows me you must have been there when the universe was beginning. You will find in two different Ayats the statement that all the creation began from a single point and from this point it is expanding. In 1978 they gave the noble prize to two people who proved that that’s the case. It is the big bang origin of the universe. It was determined by the large radio receivers that they have for the telephone companies which were sensitive enough to pick up the transmissions from satellites and it kept finding background noise that they could not account for. Until the only explanation came to be, it is the left over energy from that original explosion which fits in exactly as would be predicted by the mathematical calculation of what would be this thing if the universe began from a single point and exploded outwards. So they confirmed that, but in 1978. Centuries before that here is the Quran saying the heavens and the earth in the beginning they were one piece and split and says in another Ayah : “of the heavens we are expanding it”.
Let me tell you about a personal investigation, it occurred to me that there are a number of things you can find in the Quran that gave evidence to its origin –internal evidence- . If the Quran is dictated from a perfect individual; it originates wth God, then there should not be any wasted space, it should be very meaningful. There should be nothing that we don’t need that you can cut off, and it should not be missing anything. And so that everything in there should really be there for a specific purpose. And I got to thinking about the Ayah which I mentioned before, it says, the likeness of Jesus is the likeness of Adam. It an equation, it uses the arabic word (mithel), it says Jesus, Adam, equal. You go to the index of the Quran, you look up the name ISA it is in the Quran 25 times, you lookup the name Adam it is there 25 times. They are equal, through scattered references but 25 of each. Follow that through and you will find that in the Quran there are 8 places were an Ayah says something is like something else, using this (Mithel), you will find in every case and take both sides of it whatever that word is look it up in the index and it will be lets say 110 times and lookup the other word and it will be said to be equal to the same 110. That is quite a project of co-ordination if you try to write a book that way yourself. So that everywhere you happened to mention that such and such is like such and such that then you check your index, filing system, or your IBM punch cards or whatever, to make sure that in this whole book you mentioned them both the same number of times. But that’s what you will find in the Quran.
What I am talking about is built on a thing that is called in logic use and mention of a word. When you use a word, you are using its meaning. When you mention a word, you are talking about the symbol without the meaning. For example, if I say Toronto is a big city I used the word Toronto as I meant this place Toronto is a big city. But if I say to you TORONTO has 7 letters, I am not talking about this place Toronto, I am talking about this word TORNOTO. So that revelation is above reasoning but it is not above reason. That is to say we are more up not to find in the Quran something that is unreasonable, but we may find something that we would have never figured out for ourselves.
The author of this sentence said if this book came from someone besides God then you will find in it many (IKHTILAFAN) (inconsistencies). The word IKHTILAF is found many times in the Quran. But the word IKHTALAFAN is only found once in the Quran. So there are not many IKHTILAFAN in the Quran, there is only one (where the sentence is mentioned). So you see how things are put together perfectly. It has been suggested to mankind: find a mistake. Man could not get hold of a mistake, and he is very clever, because this sentence could also mean : Find many IKHTILAFAN and so he quickly goes to the index to see if he can find MANY of them and there is only ONE... Sorry clever person!!
Tuesday, December 28, 2010
What Great Scientests and Thinkers Said About Prophet Muhammed
Allah sent his Messenger Mohammad (PBUH) as mercy to the universe. His mercy prevailed on all humans non-humans, stones, trees, solids, animals, Muslims and non-Muslims.
the Prophet Muhammad PBUH, when he sent the army to fight the oppressors and aggressors, ordered his companions not to kill an old man, or a child or a woman, not to cut trees, or destroy buildings, not to slaughter animals, but only for food. He also ordered them not to disturb the monks, and leave them alone in their hermitages. His mercy has extended all Allah's Creatures. he even ordered his companions after they burned ants, saying: '' No one is ought to torture with fire except the Creator of Fire''.
Throughout history, many Non-Muslims great thinkers and intellectuals stood fascinated by the personality of Prophet Mohammad PBUH and his biography they highly lauded his stances and principles:
Hercules, the Great Roman Emperor, asked many questions about Prophet Mohammad PBUH to Abu Sufian and reached the conclusion of the truth of Mohammad's Call. He even said: ''if i were in his presence, I would wash his feet''.
And the beard Of King Al Najashi of Habasha (Ethiopia) became wet with his tears when he heard some of what Prophet Mohammad (PBUH) came with, Al Najashi said: ''these words and what Jesus said, come from the same lantern''.
And the French Philosopher, Lamartine said: "Mohammad (PBUH) is the Philosopher, Orator, Apostle, Legislator, Warrior, Conqueror of fantasies.
In all standards by which human greatness is measured, we may well ask: Is there any man greater than Prophet Mohammad?!''
And the Famous English playwright George Bernard Shaw said: ''The world much needs a man with Mohammad's bright thinking. If a man like Mohammad were to assume The rule of modern world, he would succeed in solving its problems and bring peace and happiness to it''
And Michael Hart, said : "My choice of Muhammad to lead the list of the world's most influential persons may surprise some readers and may be questioned by others, but he was the only man in history who was supremely successful on both the religious and secular levels''
And The great Indian Leader Mahatma Gandhi said: After i finished the second part of the Biography of Mohammad, i felt i needed to know more about this great personality. He uncontested, won the hearts of millions of people''.
And Thomas Carlyle, the English writer, said: ''I like Mohammad for his Hypocrisy-free nature... With clear and sound words he addresses the Roman Tsars and Kings of Persia. He guides them to what he loves for them in this life and in the eternal life''
And George Wells, the English author regards Prophet Mohammad (PBUH) the greatest personality who established a state for justice and tolerance.
And the researcher Ligtner said: '' i declare my hope to see a day coming in which the Christians will highly respect Jesus through their respect to the Prophet Mohammad (PBUH). Truly the Christian who recognize the religion and right brought by Prophet Mohammad (PBUH) is clearly the true Christian''.
And the Famous Russian writer LEO Tolstoy believes that Mohammad's religion will prevai lover the Whole World as it is in conformity with mind and wisdom.
And Jean-Louis Michon, the french orientalist, said : ''Islam which ordered Jihad or Holy War, had much tolerance with followers of other religions...
As per the teachings of Mohammad (PBUH), Omar Bin AL Khattab (RA), did not inflect harm on Christians when he conquered Jerusalem.
And the Well-known French historian Gustav Lobon said Mohammad is the Greatest man that History ever knew.
And Will Durant, author of the Story of Civilization said: '' if we rated greatness by the influence of the great on people, we will say Mohammad is the greatest of the great in history''
And Allah say the truth when he says in The Koran Chapter 68. Al-Qalam: "..And you are certainly on the most exalted standard of moral excellence."
Allah Glory to him says the truth.
انك لعلي خلق عظلم
Thursday, December 23, 2010
FOR ARABIC STUDENTS
THIS BOOK IS ON THE TYPIC OF : NET ,JRF, MA, M.Phil, & Ph.D, FOR ARABIC STUDENTS IF ANY ONE HAVE ARABIC SUBJECT AND WANTS TO WIN OUT IN THE COMPETITIVE EXAMS OF ABOVE,THEN HE MUST CONSULT THIS TRUSTEE AND VALUABLE BOOK.
strongly wanting to be more successful than others.
strongly wanting to be more successful than others.
Saturday, December 18, 2010
کامیاب عورت“کا مغربی اور اسلامی نقظہ نظر
کامیاب عورت“کا مغربی اور اسلامی نقظہ نظر
گزشتہ صدی سے یہ موضوع مسلسل زیرِ بحث ہے کہ معاشرے میں ” کامیاب عورت“ کون ہوتی ہے؟ مغربی معاشرے میں اُس خاتون کو ”کامیاب عورت“ قرار دیا جاتاہے جو کامیاب معاش رکھتی ہو، جو مالی طور پر خود مختار ہو اور جو گھر اور کارکی مالک ہو۔ لہٰذا ایسی خواتین اس معاشرے میں رول ماڈل (Role model)کے طور پر جانی جاتی ہیں جو مذکورہ بالا معیار پر پوری اترتی ہوں۔ چنانچہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر کی بیوی اوربظاہر چار بچوں کی ماں چیری بلیئر جو ایک کامیاب وکالت کا کیرئیر(Career) رکھتی ہے ، اس کا ذکر اکثر رول ماڈل کے طور پر کیا جاتاہے۔
اسی طرح اُس معاشرے میں یہ رائے بھی عام ہے کہ باپ یا شوہر پر انحصار کرنا عورت کو معاشرے میں کم تر درجے کا مالک بنا دیتا ہے۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہا جاتاہے کہ وہ عورت جو ماں یا بیوی ہونے کے ساتھ کوئی بھی ذریعہ معاش نہیں رکھتی اس کی کوئی اہمیت نہیں یا یہ کہ وہ ایک ناکام عورت ہوتی ہے۔ اسی لیے اُس معاشرے میں جب کسی عورت سے یہ سوال کیا جاتاہے کہ ”آپ کا پیشہ کیا ہے؟“ یا ”آپ کیا کرتی ہیں؟“ تو وہ یہ جواب دیتے ہوئے شرمندگی محسوس کرتیں ہیں کہ” میں صرف ماں ہوں“ یا ”میں ایک گھریلو خاتون ہوں“۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مغربی معاشرے میں ایک پیشہ ور خاتون کو مالِ جنس (Commodity) کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور اس کی اہمیت کا دارومدار اِس چیز پر ہے کہ وہ معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہی ہے۔
اسی طرح مغربی معاشرے میں تذکیروتانیث کا معاشرے میں کردار کے حوالے سے بہت بڑی تبدیلی آئی ہے کہ ایک خاندان میں عورت کو بھی کمانے کا اتنا ہی حق ہونا چاہیے جتنا کہ مرد کو۔ چنانچہ 1996 میں کیمبرج یونیورسٹی کی رپورٹ کے مطابق لوگوں کی اس بارے میں رائے کہ یہ صرف مرد کا کام ہے کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے، 1984میں 65فیصد تھی جو کہ 1994میں کم ہوکر 43فیصد رہ گئی۔ اس وقت برطانیہ میں 45فیصد خواتین کام کرتی ہیں اور امریکہ میں 78.7فیصد خواتین کام کرتی ہیں۔
جبکہ مغربی حکومتیں کامیاب عورت کے اس معیار کی حوصلہ افزائی کرتی نظر آتی ہیں۔ لہٰذا ایسی عورتوں کی تعریف کی جاتی ہے جو کہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرچکی ہوں۔ مزید برآں ایسی ماﺅں کے لیے معاشی فوائد کا اعلان بھی کرتیں ہیں جو کام کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ چنانچہ موجودہ برطانوی حکومت نے ایک پالیسی بعنوان ”قومی سٹریٹیجی برائے بچوں کی دیکھ بھال“ متعارف کرائی ہے کہ جس کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال کے لیے بہت سی جگہیں فراہم کی جائیں گی تاکہ وہ عورتیں جو کام کرتی ہیں اپنے بچوں کو دیکھ بھال کے لیے ان جگہوں پر چھوڑ سکیں۔ اسی طرح انہیں مالی فوائد اور ٹیکس میں چھوٹ بھی دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے بچوں کی دیکھ بھال پر اٹھنے والوں اخراجات کو برداشت کرسکیں۔ چنانچہ ”Full Time Mothers“ نامی تنظیم کا سربراہ جِل کِربی کہتا ہے کہ ” ایسی عورتوں کے لیے مالی فوائد ہیں جو کام کرتی ہیں لیکن گھر بیٹھی عورتوں کے لیے کوئی مالی فائدہ نہیں“
بدقسمتی سے وہ مسلم خواتین جو مغرب میں رہ رہی ہیں وہ اس سوچ سے بہت متاثر ہوئی ہیںکہ اپنی اس زندگی میں ایک کامیاب کیرئیر حاصل کرنا باقی تمام مقاصد سے بڑھ کر ہے۔ وہ بھی اب یہ یقین رکھتی ہیں کہ یہ کیرئیر ہی ہے جو کہ عورت کو معاشرے میں مقام اور عزت بخشتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شادی دیر سے کرتی ہیں یا وہ شادی کرتی ہی نہیںکیونکہ وہ شادی کو اپنے کیرئیر کی راہ میں رکاوٹ سمجھتی ہیں۔ وہ بچوں کی پیدائش بھی دیر سے کرتی ہیں اور تھوڑے بچے پیدا کرتی ہیں یا بچے پیدا ہی نہیں کرتیں۔ اور وہ خواتین جو کوئی کام نہیں کرتیں وہ اپنے معاشرے کی طرف سے مستقل دباﺅ کا شکار رہتی ہیں کہ انہیں بھی کوئی کام کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہاں پر موجود مسلمانوں کی بڑی تعداد اس سوچ سے متاثر ہوچکی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بہت سے والدین اپنی بیٹیوں کو کامیاب کیرئیر اختیار کرنے کی ترغیب دیتے ہیں، جبکہ ممکن ہے کہ وہ لڑکی جلدی شادی کرنے کے حق میں ہو اور ماں کا کردار نبھانے کو ترجیح دیتی ہو۔
”کامیاب عورت“ کے اس مغربی معیار کا اسلامی دنیا پر اثر:
مغرب چاہتا ہے کہ مسلمان اُن کے دئیے ہوئے معیارات پر اپنی زندگی کو پرکھے۔ چنانچہ میڈیا کے ذریعے وہ مغربی طرزِ زندگی کو پھیلانے کے لیے دن رات ایک کئے ہوئے ہے۔ جس کا اثر یہ ہوا ہے کہ مسلم ممالک میں بھی یہ رائے پھیلتی چلی جارہی ہے کہ کامیاب خاتون وہ ہے جس کا اپنا ایک کیرئیر ہو۔ حال ہی میں ایک میگزین Working Mothers میںافغان عورتوں کے حوالہ سے ایک مضمون شائع ہوا ہے ، جس میں لکھا ہے کہ ”بہت سی خواتین معاشی ضرورت کے تحت کام کرنے پر مجبور ہوتی ہیں۔ لیکن افغان خواتین کا ایک بڑھتا ہوا گروہ اپنے کیرئیر کے دوبارہ حصول کی کوشش کررہاہے۔ تاکہ وہ اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کرسکے، جس کو وہ طالبان کی حکومت کے دوران چھوڑنے پر مجبور تھیں“ اس مضمون میں ایک لڑکی کا انٹرویو بھی شامل کیا گیا ہے جس میں کہا گیا کہ وہ افغان خواتین کی اپنے حقوق کی لڑائی کی حوصلہ افزائی کرتی ہے۔ وہ لڑکی کہتی ہے کہ”میں نے ان خواتین کو بتایا کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوں کیونکہ تم مردوں کے برابر ہو“ وہ مزید کہتی ہے کہ میں نے انہیں کہا کہ ”برقعے میں مت بیٹھو ، گھروں میں مت بیٹھی رہو، باہر نکلواور اپنے بچوں اور خاوند کو یہ ثابت کرکے دکھاﺅ کہ تم ایک عورت ہو، تم ہر کام کرسکتی ہو اور اپنے فیصلے بھی خود کرسکتی ہو“
مزید یہ اسلامی دنیا میں ایسے تصورات کو پروان چڑھانے کے لیے UNIFEM، اقوام متحدہ کا ترقیاتی پروگرام(UNDP)، اقوام متحدہ کا فنڈ برائے آبادی(UNPF) اور دوسرے غیر سرکاری ادارے حوصلہ افزائی کرتے نظر آتے ہیں۔ 2001 میں UNDPکی طرف سے پاکستان میں ”میڈیا میں عورت کو کیسے پیش کیا جائے“ کے عنوان سے ایک سروے کیا گیا جس میں یہ رائے دی گئی کہ ٹی وی کے ڈراموں اور پروگراموں میں خواتین کو بہادر اور پرُاعتماد کردار میں دکھایا جانا چاہیے اور اس سوچ کو ختم کیا جانا چاہیے کہ ایک کامیاب کیرئیر کی حامل خاتون آئیڈیل بیوی یا ماں نہیں بن سکتی۔
”کامیاب عورت“ کے مغربی معیار کا اصل ماخذ:
یہ سوچ کہ کامیاب کیرئیر کی حامل خاتون ہی ”کامیاب عورت“ ہوتی ہے ، سرمایہ دارانہ نظام سے لیا گیا ہے۔ جس میں مادی فائدے اور نفع کی بنیاد پر کامیابی کو جانچا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ خاتون جو کاروبار کرتی ہے، ڈاکٹر ہے، وکیل ہے یا وہ اکاونٹنٹ ہے تو وہ کامیاب عورت ہے۔ کیونکہ یہ معاشی لحاظ سے معاشرے میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔ چاہے وہ یہ حصہ خدمات کی شکل میں دے رہی ہو یا پھر ٹیکس کی شکل میں حکومت کو ادا کررہی ہو۔ اسی طرح ان کے نزدیک ایک گھریلو ماں یا بیوی معاشرے میں کوئی حصہ نہیں ڈال رہی ہوتی۔ اس لیے اسے منفی نقطہ نگاہ سے دیکھا جاتاہے نہ کہ کامیابی کی علامت کے طور پر۔ 2002 میں انسٹیوٹ آف فسکل سٹڈیز(حکومتِ برطانیہ کا مشاورتی ادارہ) نے ایک رپورٹ جاری کی، جس میں یہ واضح طور پر کہا گیا کہ ”بچوں کی موجودگی ماں کے لیے روزگار کی فراہمی کی راہ میں رکاوٹ ہے اور بچوں کی دیکھ بھال کی قابلِ برداشت اور آسان رسائی کی کمی کی وجہ سے ماں کی کمائی پر الٹا اثر پڑا ہے۔ صاف گوئی تو یہ ہے کہ موجودہ سٹریٹیجی کام نہیں کررہی اور اس کا خمیازہ معاشی نقصان کی شکل میں موجود ہے“
تذکیروتانیث کا معاشرے میں کردار کی جو نئی تعریف کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ ایک خاتون چاہے وہ ماں ہو یا بیوی اسے اپنا کیرئیر جاری رکھنے کا اتنا ہی حق حاصل ہے جتنا کہ ایک مرد کو شوہر یا باپ ہونے کی صورت میں حاصل ہوتا ہے۔ یہ تعریف مرد اور عورت کی برابری کے مغربی تصورات سے لی گئی ہے۔ یہ تصور یوں ہے کہ یہ دیکھنے کی بجائے کہ معاشرے میں عورت اور مرد کوکیسے دیکھا جاتاہے بلکہ دونوں کا کردار برابر ہونا چاہیے اور اس کا فیصلہ انفرادی ہونا چاہیے۔ اسی سے یہ نکلتاہے کہ عورت کو مرد کے برابر روزگار کی فراہمی کا حق ہونا چاہیے اور خواتین وہ کام اور نوکریاں بھی کرسکتی ہیںجو مرد کرتے ہیں حتیٰ کہ وہ اپنی شادی سے متعلق معاملات کا فیصلہ بھی خود کرے یعنی کہ وہ بچوں کی دیکھ بھال کرے گی یا کمائے گی۔ برابری کا یہ تصور اپنے اندر ایک ظالمانہ روش رکھتا ہے جو کہ انسانی عقل سے بنائے گئے سرمایہ دارانہ نظام میں عورت کو بھگتنا پڑتاہے۔
یہ تصور اس متعصب ماحول کی پیدا وار ہے جب انگریز معاشرے میں عورت کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتاتھا اور عورت انتہائی مشکل زندگی گزارنے پر مجبور تھی۔ حتیٰ کہ 1850ءتک انگریز قوانین کے تحت عورت کو شہری تک تصور نہیں کیا جاتاتھا۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ خواتین کے حقوق اوران کے لیے برابری کے حق کے لیے آواز بلند کی گئی اس یقین کے ساتھ کہ عورت صرف اسی طرح بہترمعیار زندگی حاصل کرسکے گی جب اس کا اپنا کیرئیر ہوگا، وہ مالی طور پر خودمختار ہوگی اور معاشرے میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرے گی۔
دوسری جنگِ عظیم کے بعد کام کرنے والی خواتین کی حوصلہ افزائی کی گئی تاکہ وہ ملک کی معیشت میں اپنا حصہ ڈالیں۔ مغربی طاقتوں نے عثمانی خلافت کے اندر بھی عورتوں کے حقوق اور برابری کی آواز اٹھائی جس کا مقصد عورتوں کا معیارِ زندگی بلند کرنے کی بجائے اسلامی ریاست پر کاری ضرب لگانا تھا۔ مغربی مصنف برنارڈلیوس اپنی کتاب ”The Middle East“کے باب ”آزادی سے آزادی تک“ میں رقمطراز ہے کہ ”عورتوں کی آزادی کی ایک بڑی وجہ معاشی ضرورت تھی...معیشت کے اندر جدت پسندی زنانہ لیبر کی ضرورت کو سامنے لائی اور جسے جدید جنگ میں فوجی بھرتی کی وجہ سے کافی بڑھاوا دیا گیا... عورتوں کی معیشت میں شمولیت اور معاشرتی تبدیلیاں اسی کا نتیجہ ہیں جو جنگ کے دوران اور بعد میں بھی جاری رہیں بلکہ اسی وجہ سے عورتوں کے حق میں قانونی تبدیلیاں بھی کردی گئیں۔ یہ کچھ حد تک معاشرتی اور خاندانی زندگی پر اثر انداز بھی ہوئیں ہیں“
”کامیاب عورت“ کے اس نقطہ نظر کا خاندانی ڈھانچے پر اثر:
کیرئیر کی تلاش کو عورت کی زندگی کا اصل مقصد بنا دینے کی وجہ سے مغربی معاشرے میں بہت سے مسائل نے جنم لیا ہے، خصوصاً اس کی وجہ سے خاندانی ڈھانچے پر نہایت ہی مہلک اثر ہوا ہے۔ اس کی وجہ سے شادی شدہ زندگی میں تناو پیدا ہورہا ہے اور چونکہ شوہر اور بیوی ایک دوسرے کے ساتھ کم وقت گزارتے ہیں ، اس لیے طلاق کی شرح میں روزبروز اضافہ ہورہا ہے۔ اس نظریہ کی وجہ سے بچوں کی تعداد میں کمی واقع ہوئی ہے اور والدین کا اپنے بچوں کے ساتھ کم وقت گزارنے کی وجہ سے بچوں اور والدین کے درمیان تعلقات میں سنگین قسم کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔
یہ مسائل ان مسلم خاندانوں پر بھی اثر انداز ہو رہے ہیں جو اس نظریے سے مرعوب ہوچکے ہیں۔ شوہر اور بیوی کے کردار کی صحیح وضاحت نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں کے درمیان بحث ومباحثہ جاری رہتاہے اور یہی بحث بالآخر طلاق کا باعث بن جاتاہے۔ بچوں کے معاملے میں ماں اور بچے کا جو قریبی تعلق ہوتاہے اور جسے مزید پروان چڑھنا چاہیے لیکن اس نظریے کی وجہ سے ماں کی طرف سے بچے کی پرورش اسلامی تہذیب کے مطابق نہیں ہوپاتی۔ اس کی وجہ ماں کا بچے کے ساتھ کم وقت گزارنا ہے اور والدین اپنا کیرئیر بنانے کے چکر میں بچوں کو ایسی جگہوں پر داخل کرادیتے ہیں جہاں ان کی غیر موجودگی میں بچوں کی دیکھ بھال ہوتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ بچے غیر اسلامی شناخت اختیار کرلیتے ہیں۔ والدین کا کہنا نہ ماننا، انہیں نظر انداز کرنا، شراب پینا اور منشیات کا استعمال جیسے بُرے کام مغربی معاشرے میں موجود ان مسلم خاندانوں میں عام ہےں جہاں ”کامیاب عورت“ کا یہ نظریہ اپنایا جارہاہے۔
”کامیاب عورتوں“ کی خستہ حالی:
وہ لوگ جنہوں نے اصل میں خواتین اور مردوں کے درمیان برابری کا تصور دیا ہے ان کا یقین ہے کہ برابری کا یہ تصور خواتین کو ان کی خستہ حالی سے باہر نکالتاہے۔ وہ خستہ حالی جس میں مغربی عورت کئی سالوں سے مبتلا تھی اور جسے ریاست کا شہری تک تصور نہیں کیا جاتاتھا۔ تاہم اس تصور کو اپنانے کے بعد بھی کام کرنے والی عورتیں کوئی کم خستہ حال نہیں ہیں، بس وجوہات مختلف ہیں۔ بچوں کی پیدائش میں دیر یا بچے پیدا ہی نہ کرنا یہ سب کچھ اس وجہ سے ہے کیونکہ کیرئیر اس بات سے متفق نہیں کہ تولیدی جبلت ہر عورت میں پائی جاتی ہے بلکہ اس کے نزدیک یہ جبلت خستہ حالی کا باعث ہے۔ وہ کیرئیر وویمن جن کے بچے ہوتے ہیں وہ اپنے بچوں کے ساتھ کم وقت گزارنے کی وجہ سے مستقل طور پر ندامت محسوس کرتی رہتی ہے۔ مزید یہ کہ وہ خود کو بیوی، ماں اور کام کے درمیان بہت زیادہ مصروف پاتی ہے۔ بہت سے گھروں میں ایک کیرئیر وویمن اپنی گھر کی ذمہ داریوں کو کم نہیں کرپاتی۔ وہ اپنے کیرئیر کو جاری رکھنے کے لیے کام کرتی ہے لیکن گھر کے کام ایسی نوعیت کے ہوتے ہیں کہ وہ ان کو اپنے آپ سے جدا نہیں کرپاتی۔
چنانچہ خواتین کا سارا دن ایک کام سے دوسرے کام کو کرتے ہوئے گزر جاتا ہے۔ اپنی فیملی کے لیے ناشتہ تیار کرنا، شوہر اور بچوں کے لیے لنچ تیار کرنا، بچوں کو تیار کر کے سکول بھیجنا، اپنی نوکری کے لیے جانا، دفتر میں پورا دن کام کرنا، پھر سکول سے بچوں کو لینے جانا، رات کا کھانا تیار کرنا، بچوں کا بستر تیار کرنااور اگلے دن کی تیاری کرنا۔ وہ یہ محسوس کرتی ہیں کہ وہ اپنا کوئی بھی کام بہتر طور پر نہیں کرپاتیں، کیونکہ ایسی خاتون بہت زیادہ تھکاوٹ اور ٹینشن محسوس کرتی ہے۔ ایک مغربی مصنفہ Lisa Belkinاپنی کتاب "Life's work: Confessions of an unbalanced Mom" میں لکھتی ہیں کہ ”ہم میں سے کوئی ایک خاتون بھی 100فیصد وقت اپنی نوکری کو نہیں دے سکتی ، نہ 100فیصد اپنی فیملی کو دے سکتی ہیں اور نہ ہی 100فیصد خود اپنے لیے نکال سکتی ہیں“ یہ ان کامیاب عورتوں کی خستہ حالی نہیں تو کیا ہے؟ مغرب نے آزادی کے نام پر اسے ایک معاشی جنس بنا کر رکھ چھوڑا ہے۔
برابری کے تصور کی حقیقت:
یہ تصور کہ معاشرے میں تذکیروتانیث کی برابری خواتین کے لیے ترقی کی راہ متعین کرتا ہے ایک فاش غلطی ہے۔ انسان کے بنائے ہوئے کسی بھی نظام میں انفرادی لحاظ سے سب کو برابری کا حق دینا ممکن نہیں چاہے یہ مرد اور عورت کے درمیان ہویا کالے اور گورے کے درمیان یا پھر جوان اور بوڑھے کے درمیان، کیونکہ انسان جب بھی خود قانون بناتا ہے وہ اپنے لیے اور دوسروں کے لیے بگاڑ کا باعث بنتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ ترقی یافتہ ممالک میں 30سال سے برابری کے حوالے سے قانون موجود ہیں لیکن ان معاشروں میں خواتین مردوں کے جیسا کام کرنے کے باوجود کم تنخواہ لیتی ہیں۔ یہ اس چیز کو واضح کرتا ہے کہ پوری صدی میں خواتین کے حقوق اور برابری پر بات کی گئی اور پھر بھی بیسویں صد ی میں برطانیہ میں صرف 4فیصد خواتین جج کے عہدے پر فائز تھیں، 11فیصد مینجر اور FTSEکی 100میں سے 2 خواتین ڈائریکٹر کے عہدے پر فائز تھیں۔
مزید یہ کہ مرد اور عورت پر برابری کیسے لاگو ہوسکتی ہے جو جسمانی اور اعضائی لحاظ سے فطری طور پر ہی مختلف ہیں۔ جیسا کہ ایک مصنف لکھتاہے کہ ”برابری کے اس تصور میں ایک فطری دباﺅ موجود ہے، جو پہلے سے ہی فرض کرلیتا ہے کہ اس میں یکسانیت ہے۔“ یہ ایسا ہی ہے کہ یہ تجویز کرلینا کہ سورج اور زمین چاہے فطرت میں اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں لیکن ان کا کام ایک جیسا ہونا چاہیے جب زندگی میں کردار اور کام اس طرح سے طے کیے جائیں جس میں مرد اور عورت کی فطرت میں اختلاف کو بروئے کار نہ لایا جائے تو یہ فیصلہ مصیبت اور خستہ حالی کاسبب بنتا ہے جیسا کہ پیچھے بیان کیا جاچکا ہے۔
اسلام اور ”کامیاب عورت“ کا صحیح تصور:
اسلام کسی عمل، کام یا شخص کو اس بنیاد پر نہیں جانچتا کہ وہ ریاست کی معیشت میں کتنا حصہ ڈال رہا ہے۔ اسلام کسی مرد یا خاتون کو جانچنے کا پیمانہ یہ بتاتا ہے کہ ان کے اعمال اللہ کے حکم کے مطابق ہیں یا نہیں اور ان کے تقویٰ کا معیار کیا ہے؟ حضور ا نے اپنے آخری خطبہ حج میں فرمایا: ”کسی عربی کو عجمی پر اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی گورے کو کالے پر اور نہ ہی کسی کالے کو کسی گورے پر کوئی برتری حاصل ہے، سوائے تقوی اور اصل اعمال کی بنیاد پر “ اس لیے کامیاب عورت وہ ہے جو کہ پُرخلوص ہوکر اللہ کے احکامات کی پیروی کرے، اس حقیقت کو ذہن میں رکھتے ہوئے کہ یہ ہمارے اعمال ہی ہونگے جو مرنے کے بعد ہمارے لیے جنت یا دوزخ کا فیصلہ کرائیں گے۔ یہی کامیابی کا صحیح معیار ہے۔
اسلام دینِ فطرت ہے چنانچہ جن معاملات میں مرد اور عورت کی فطری صلاحتیں ایک جیسی ہیں، ان معاملات میںاسلام نے ان پر فرض بھی ایک جیسے عائد کیے ہیں، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ۔ تاہم جہاں فطرت میں فرق پایا جاتا ہے تو وہاں فرائض بھی مختلف عائد ہوتے ہیں، اس لیے خاونداور باپ پر فرض ہے کہ وہ اپنے خاندان کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کرے اور مالی طورپر ان کی کفالت کرے۔ جبکہ عورت کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ اپنے خاوند اور بچوں کی دیکھ بھال کرے، ان کی فلاح وبہبود کا خیال رکھے اور اپنے بچوں کی پرورش اسلامی تہذیب کے مطابق کرے۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”مرد عورتوں پر حاکم ہیںاس وجہ سے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے کہ مردوں نے اپنے مال خرچ کئے ، پس نیک فرمانبردار عورتیں خاوند کی عدم موجودگی میں بہ حفاظت الٰہی نگہداشت رکھنے والی ہیں“ (النسائ:34)
اللہ نے مردوزن کی ذمہ داریاں بانٹ دیں۔ چنانچہ اسلام نے مرد پر جو ذمہ داری عائد کی ہے وہ ماں یا بیوی کے کردار سے بڑھ کر نہیں، بلکہ اس پر عائد کی گئی ذمہ داری کا وہ جوابدہ ہے۔ دونوں فرائض ایک دوسرے کے لیے قابلِ قبول ہیںاور خاندان کو بااحسن طریقے سے چلانے کے لیے نہایت ہی ضروری ہیں تاکہ معاشرہ صحیح طور پر کام کرسکے اور اس میں سکون ہو۔ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں:
”اور اس چیز کی آرزو نہ کرو جس کے باعث اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے۔ مردوں کو ان کے کاموں کا اجر ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کے کاموں کا اجر ہے جو انہوں نے کئے “(النسائ:32)
برابری کا مغربی تصور انسانی اختراع ہے جو فطرت میں بگاڑ پیدا کرتاہے اور اسلام میں ایسے تصور کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اسلام میں تمام احکامات خالقِ باری تعالیٰ کی طرف سے نازل کردہ ہیں جو مرد اور عورت دونوں کے لیے منصفانہ ہیں۔ مزید یہ کہ اسلام بنی نوع انسان کو یہ اجازت نہیں دیتا کہ وہ معاشرے میں اپنی مرضی یا دلی پسند اور ناپسند کے مطابق اپنے فرائض منصبی کا تعین کرے، بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ اللہ کی طرف سے عائد کردہ فرائض کو من وعن قبول کرے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
”اللہ اور اس کا رسول ا جب کوئی فیصلہ کریں تو کسی مومن مرد یا عورت کے لیے اس فیصلے میں کوئی اختیار نہیں (یاد رکھو) اللہ اور اس کے رسول کی جو بھی نافرمانی کرے گا وہ صریح گمراہی میں پڑے گا“ (الاحزاب: 36)
اسلام میں ایک عورت کے لیے جائز پیشے:
اسلام میں یہ بات بالکل واضح ہے کہ ایک عورت کوئی پیشہ اختیار کرسکتی ہے اگر وہ ماں اور بیوی جیسے اپنے بنیادی فرائض کے ساتھ کوئی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ تاہم اسلام خواتین کو چند مخصوص پیشے اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتاہے جس کی تفصیل یوں ہے:
1) حکمرانی کا عہدہ جیسا کہ خلیفہ، والی یا عامل: یہ اس وجہ سے نہیں ہے کہ اسلامی معاشرے میں عورت مرد سے کمتر ہے، بلکہ اس کی ممانت کے خاص دلائل موجود ہیں۔ حضرت ابوبکرؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ا نے فرمایا ”جو لوگ ایک عورت کو حکمرانی کے عہدے پر فائز کرتے ہیں وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتے“ مزید یہ کہ اسلام میں حکومت کرنا کوئی عزت یا اعلیٰ مرتبہ کی چیز نہیں سمجھا جاتا بلکہ یہ ذمہ داری، لوگوں کے امور کی دیکھ بھال اور ایسا کام جس کا محاسبہ ہوتا ہے، کا معاملہ ہے۔
2) کوئی بھی ایسا کام جس میں عورت کی نسوانیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا جائے: عورت ایسا کوئی پیشہ اختیار نہیں کرسکتی جس میں کام کی نوعیت اس کی نسوانیت پر مرکوز ہو جیسا کہ ماڈلنگ اورتشہیر کاکام وغیرہ۔ اسی طرح وہ ایسا کام بھی نہیں کرسکتی جس میں اسے نامحرموں کی موجودگی میں (ہاتھ اور چہرے کے علاوہ) اپنا ستر کھولنا پڑے یا اس کام میں اپنے نامحرموں کو اپنی خوبصورتی کی طرف مائل کرنا پڑے۔ یہ اس وجہ سے ہے کہ اسلام نے عورت کو عزت سے نوازا ہے اور اس پر فرض ہے کہ وہ اس کی حفاظت کرے نا کہ اس کی نسوانیت کو ایک معاشی چیز سمجھا جائے۔
چنانچہ مسلمان عورت کو یہ تسلی ہونی چاہیے کہ وہ ان کے علاوہ کوئی بھی پیشہ اختیار کرسکتی ہے جو اسلامی احکامات پر پورا اترتا ہو اور جو اسلامی معاشرتی حدود کے اندر ہو۔ اور یہ بات بھی یقینی ہو کہ اس کام میں کسی نامحرم مرد کے ساتھ خلویٰ یعنی اکیلے مرد کے ساتھ تنہائی تو شامل نہیں تاکہ کوئی بھی اس کے کردار پر انگلی نہ اٹھا سکے اور نہ ہی کسی قسم کے شک کا سبب بن سکے۔ نیز یہ پیشہ مردوں کے ساتھ اختلاط کا باعث نہ ہو اور جتنا ممکن ہوسکے اس میں مردوں کے ساتھ قریبی تعلقات کی ضرورت درکار نہ ہو۔
چنانچہ ان پابندیوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک عورت ڈاکٹر بن سکتی ہے، انجئنیر بن سکتی ہے، کاروبار کرسکتی ہے یا سائنسدان بن سکتی ہے یا پھر استاد بن سکتی ہے اور یوں وہ اسلامی معاشرے کی اصلاح کے لیے بہت اہم کردار ادا کرسکتی ہے۔
حضور ا کے دور میں بہت سی مسلمان عورتیں کام کیا کرتی تھیں۔ خود حضور ا زوجہ محترمہ حضرت سودا ؓ جانوروں کی کھالوں کو رنگنے کا کام کرتی تھیں۔ ایک صحابیہ حضرت کلاؓ تجارت کیا کرتی تھیں، بہت سی ایسی روایات موجود ہیں کہ جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ حضور ا سے اپنے تجارتی معاملات سے متعلق سوال کیا کرتی تھیں تاکہ ان معاملات میں اسلام کا حکم معلوم ہوسکے۔ جابر بن عبداللہؓ کی چچی کاشت کاری کیا کرتی تھیں۔ اسی طرح بہت سی خواتین جنگ کے دوران زخمیوں کی مرہم پٹی کیا کرتی تھیں۔ اور حضرت عمرؓ نے اپنے دورِ خلافت میں ایک عورت کو قاضی حسبہ بنا یا تھا۔
آخری بات:
[”کامیاب عورت“ کے مغربی تصور کے مطابق عورت کی حیثیت ایک معاشی چیز سے زیادہ کچھ نہیں۔ وہ اسی وقت اس معاشرے کے لیے اہم ہے جب وہ کچھ کما کر انہیں دے رہی ہے۔ استعمار کافر چاہتا کہ مسلمان عورتیں بھی اسی معیار کو اپنائیں اور اسلامی ممالک میں اس تصور کو پروان چڑھایا جائے۔ وہ تصور جو ان کے اپنے معاشرے میں بدبختی اور مسائل کے علاوہ کچھ پیدا نہیں کرسکا اور جس نے عورت کو اس کی عزت کی حفاظت کرنے کی بجائے اسے ایک کاروباری اشتہار بنا کر رکھ دیا ہے۔
اسلام عورت کو اس گھٹیا طریقے سے نہیں پرکھتا۔ بلکہ اسلام میں وہ عورت ”کامیاب عورت“ کہلاتی ہے جو اللہ کے احکامات کو پورا کررہی ہوتی ہے۔ وہ خود کو مرد سے کمتر نہیں سمجھتی بلکہ وہ معاشرے میں اپنے کردار اور فرائض کو اختیار کرنے کی متمنی ہوتی ہے۔ وہ کام تو کرسکتی ہے لیکن اسے وہ اپنی کامیابی سے نہیں جوڑتی اور نہ ہی اپنے رتبے کو اپنے کیرئیر سے ماپتی ہے۔ وہ اللہ کے احکامات کو بجا لانے کو اپنے لیے فخر کا باعث سمجھتی ہے۔ ایسی عورت ہی ”کامیاب عورت“ ہے۔
عورت کو طرح طرح سے تنگ کیا جاتا ہے مثلاً ایک پرائیویٹ Survey کے مطابق گورنمنٹ ہسپتالوں کی نرسوں سے لئے گئے انٹرویو میں 58فیصد نرسوں نے کہا کہ ساتھ کام کرنے والے ملازمین اور مریضوں کے ساتھ ان کے رشتہ دار تنگ کرتے ہیں۔ یہ خواتین باعزت طور پر ملازمت کرنا چاہتی ہیں۔ اسی طرح تشدد کے بارے میں سوال کرنے پر 93فیصد خواتین نے بتایا کہ ان کے ساتھ کام کرنے والے مرد یا ان کے Boss ان کو پریشان کرتے ہیں۔ ان کو ذاتی تعلقات قائم کرنے پر مجبور کرتے ہیں Demand پوری نہ کرنے پر نوکری ختم کردینے کی دھمکی دیتے ہیں۔
Saturday, December 4, 2010
بھارت اور اسرائیل کے مابین خاموش سفارت کاری کے اہداف
تاریخ گواہ ہے کہ 9/11 کے واقعات کے فوراً بعد بھارت اور اسرائیل دونوں نے صدر بش کی چھیڑی ہوئی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں'' بلاتوقف شمولیت اختیار کرلی تھی اور اب ان دونوں نے اپنی جملہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کے خلاف خفیہ سفارت کاروں کی مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے اور آئے دن اس مہم میں اب شدت آتی جارہی ہے۔
کچھ عرصہ قبل بھارتی ہفت روزہ ''آئوٹ لک'' کے 18 فروری 2008 ء کے شمارے میں بھارت میں تعینات اسرائیلی سفیر کا ایک انٹرویو چھپا ہے اور اس انٹرویو میں اسرائیلی سفیر نے اپنی خاموش سفارت کاری کی جانب چند معنی خیز اشارے کئے ہیں انہوں نے بھارت ' اسرائیل دفاعی معاہدے کو ایک معمول کی کارروائی قرار دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس معاہدے کی رو سے دفاع کے شعبے میں چند ایسے حساس نوعیت کے راز موجود ہیں جنہیں عمداً پردہ اخفا میں رکھا گیا ہے اور یہ معاملات آگے چل کر بھی راز ہی رہیں گے۔
ان تعلقات کے حوالے سے جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بھارت ' اسرائیل گٹھ جوڑ 2003 ء تک خفیہ ہی تھا اور پھر جب اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے باضابطہ طور پر دونوں ملکوں کے باہمی مراسم کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے بھارت کے روزنامے ''دی ٹریبون'' نے 10 ستمبر2003 ء کو لکھا ہے کہ بھارت اور اسرائیل دونوں ملک مفاہمت کی منازل تیزی سے طے کررہے ہیں۔
اس طرح تزویراتی شعبے میں مزید تعاون کی راہیں ہموار کرنے پر بھی اب دونوں ملکوں کے مابین اتفاق رائے طے پاگیا ہے اور اسرائیل اس بات پر بھی رضامند ہے کہ دفاعی شعبے پر اٹھنے والے اخراجات کو اسرائیل بھی پوری طرح شیئر کرے گا اس حوالے سے ''انڈین ایکسپریس'' نے یہ راز فاش کیا ہے کہ اینٹی میزائل سسٹم سے لے کر ہائی ٹکی راڈار تک اور سکائی ڈرونز سے لے کر نائٹ ویژن ایکوپمنٹ تک ان تمام تحقیقی سرگرمیوں میں بھارت ،اسرائیلی دفاعی تعاون نے ترقی کی متعدد منازل طے کرلی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے مابین تعلقات اندرا گاندھی کے دور میں ہی استوار ہوگئے تھے اور انہوں نے اس وقت کے ''را'' کے سربراہ رامیش ناتھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ "موساد" کے ساتھ خفیہ مراسم کو مزید فعال بنائیں تاکہ خفیہ رابطہ کے ذریعے پاکستان ' چین اور شمالی کوریا کی دفاعی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ آگے چل کر شهيد جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ''را''او ر ''موساد'' کے مشترکہ منصوبوں کا راز فاش ہوگیا تھا جن کی رو سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ بھی شامل تھا۔
اس ایک واقعے سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ بھارت ' اسرائیل دفاعی معاہدے کی حدود صرف جنگی سازوسامان کی خریدو فروخت تک محدود نہ تھیں بلکہ ان کا دائرہ کار بہت وسیع تھا اور ایشیا اور مڈل ایسٹ کے ممالک میں تزویراتی سطح پر خفیہ اور سرعام سٹرٹیجی کو فروغ دے کر ان ممالک کو نشانے پر رکھنا مقصود تھا۔ چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی اور دفاعی طاقت کے آگے بند باندھنا بھی ''را''''موساد'' کی خفیہ سرگرمیوں میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جولائی1997 ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی بھارت ' اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تزویراتی عوامل پر اپنے گہرے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
بھارت اور اسرائیل کی خفیہ ڈپلومیسی کی اور بھی کئی جہتیں ہیں جن ميں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت ' دونوں ملکوں کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ مزید برآں چین کے جس انداز سے تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی سطح پر مراسم استوار ہو رہے ہیں اسے بھی اسرائیل اور بھارت اپنے لئے خطرے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کا وجود بھی انہیں کاٹنے کی طرح کھٹکتا ہے اور ان کی چال یہ ہے کہ اگر پاکستان کو اس کی ایٹمی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے تو پھر پاکستان اور چین دونوں کی ابھرتی ہوئی قوت کے آگے بندباندھا جاسکتا ہے اس منصوبہ بندی میں اسرائیل اور بھارت کو امریکہ کی آشیر واد بھی حاصل ہے۔
امریکہ اور بھارت کے مابین ''سویلین نیو کلیئراکارڈ'' جو طے پایا ہے اس کے پس پردہ مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بھارت کی عسکری قوت کو اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت کا مقابلہ کرسکے جہاں تک بھارت کی فوجی سرگرمیوں اور تیاریوں کا تعلق ہے اس حوالے سے یہ خبر قابل توجہ ہے کہ دہلی نے شمالی لداخ میں اپنے ہوائی اڈے کا افتتاح کیا ہے۔ یہ ائیر بیس قراقرم کے سٹرٹیجک درے کو لنک کرتا ہے اور چین کی سرحد اکسائے چن ایریا سے صرف آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ علاوہ ازیں بھارت نے چین ' بھارت سرحد کے آس پاس 10 نئے ہیلی پیڈ بھی تعمیر کیے ہیں۔ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چین سے نمٹنے کے سلسلے میں بھارت کس قدر مستعد ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مئی 1998 ء میں بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا تھا تو اس وقت کے ڈیفنس منسٹر جارج فرنانڈس نے سرعام اعلان کیا تھا کہ چین ' بھارت کے لئے خطرہ نمبر ایک ہے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے بھارت نے مئی2007 ء میں اگنی iii کا کامیاب تجربہ کرلیا تھا اور اس میزائیل کی صلاحیت اتنی بتائی جاتی ہے کہ یہ چین کے تما م شہروں کو اپنے نشانے پر رکھ سکتا ہے ۔ ادھر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھی بھارت اور اسرائیل دونوں کے لئے حد درجہ تشویش کا باعث ہے۔ان تمام شواهد اور دلائل كو مد نظرركهكر قارئ اصل حقيقت كا خود ادراك كرسكتا هے كه كون كيا چاه رها هے
کچھ عرصہ قبل بھارتی ہفت روزہ ''آئوٹ لک'' کے 18 فروری 2008 ء کے شمارے میں بھارت میں تعینات اسرائیلی سفیر کا ایک انٹرویو چھپا ہے اور اس انٹرویو میں اسرائیلی سفیر نے اپنی خاموش سفارت کاری کی جانب چند معنی خیز اشارے کئے ہیں انہوں نے بھارت ' اسرائیل دفاعی معاہدے کو ایک معمول کی کارروائی قرار دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس معاہدے کی رو سے دفاع کے شعبے میں چند ایسے حساس نوعیت کے راز موجود ہیں جنہیں عمداً پردہ اخفا میں رکھا گیا ہے اور یہ معاملات آگے چل کر بھی راز ہی رہیں گے۔
ان تعلقات کے حوالے سے جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بھارت ' اسرائیل گٹھ جوڑ 2003 ء تک خفیہ ہی تھا اور پھر جب اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے باضابطہ طور پر دونوں ملکوں کے باہمی مراسم کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے بھارت کے روزنامے ''دی ٹریبون'' نے 10 ستمبر2003 ء کو لکھا ہے کہ بھارت اور اسرائیل دونوں ملک مفاہمت کی منازل تیزی سے طے کررہے ہیں۔
اس طرح تزویراتی شعبے میں مزید تعاون کی راہیں ہموار کرنے پر بھی اب دونوں ملکوں کے مابین اتفاق رائے طے پاگیا ہے اور اسرائیل اس بات پر بھی رضامند ہے کہ دفاعی شعبے پر اٹھنے والے اخراجات کو اسرائیل بھی پوری طرح شیئر کرے گا اس حوالے سے ''انڈین ایکسپریس'' نے یہ راز فاش کیا ہے کہ اینٹی میزائل سسٹم سے لے کر ہائی ٹکی راڈار تک اور سکائی ڈرونز سے لے کر نائٹ ویژن ایکوپمنٹ تک ان تمام تحقیقی سرگرمیوں میں بھارت ،اسرائیلی دفاعی تعاون نے ترقی کی متعدد منازل طے کرلی ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے مابین تعلقات اندرا گاندھی کے دور میں ہی استوار ہوگئے تھے اور انہوں نے اس وقت کے ''را'' کے سربراہ رامیش ناتھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ "موساد" کے ساتھ خفیہ مراسم کو مزید فعال بنائیں تاکہ خفیہ رابطہ کے ذریعے پاکستان ' چین اور شمالی کوریا کی دفاعی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔ آگے چل کر شهيد جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ''را''او ر ''موساد'' کے مشترکہ منصوبوں کا راز فاش ہوگیا تھا جن کی رو سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ بھی شامل تھا۔
اس ایک واقعے سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ بھارت ' اسرائیل دفاعی معاہدے کی حدود صرف جنگی سازوسامان کی خریدو فروخت تک محدود نہ تھیں بلکہ ان کا دائرہ کار بہت وسیع تھا اور ایشیا اور مڈل ایسٹ کے ممالک میں تزویراتی سطح پر خفیہ اور سرعام سٹرٹیجی کو فروغ دے کر ان ممالک کو نشانے پر رکھنا مقصود تھا۔ چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی اور دفاعی طاقت کے آگے بند باندھنا بھی ''را''''موساد'' کی خفیہ سرگرمیوں میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جولائی1997 ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی بھارت ' اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تزویراتی عوامل پر اپنے گہرے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔
بھارت اور اسرائیل کی خفیہ ڈپلومیسی کی اور بھی کئی جہتیں ہیں جن ميں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت ' دونوں ملکوں کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ مزید برآں چین کے جس انداز سے تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی سطح پر مراسم استوار ہو رہے ہیں اسے بھی اسرائیل اور بھارت اپنے لئے خطرے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کا وجود بھی انہیں کاٹنے کی طرح کھٹکتا ہے اور ان کی چال یہ ہے کہ اگر پاکستان کو اس کی ایٹمی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے تو پھر پاکستان اور چین دونوں کی ابھرتی ہوئی قوت کے آگے بندباندھا جاسکتا ہے اس منصوبہ بندی میں اسرائیل اور بھارت کو امریکہ کی آشیر واد بھی حاصل ہے۔
امریکہ اور بھارت کے مابین ''سویلین نیو کلیئراکارڈ'' جو طے پایا ہے اس کے پس پردہ مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بھارت کی عسکری قوت کو اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت کا مقابلہ کرسکے جہاں تک بھارت کی فوجی سرگرمیوں اور تیاریوں کا تعلق ہے اس حوالے سے یہ خبر قابل توجہ ہے کہ دہلی نے شمالی لداخ میں اپنے ہوائی اڈے کا افتتاح کیا ہے۔ یہ ائیر بیس قراقرم کے سٹرٹیجک درے کو لنک کرتا ہے اور چین کی سرحد اکسائے چن ایریا سے صرف آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ علاوہ ازیں بھارت نے چین ' بھارت سرحد کے آس پاس 10 نئے ہیلی پیڈ بھی تعمیر کیے ہیں۔ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چین سے نمٹنے کے سلسلے میں بھارت کس قدر مستعد ہے۔
یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مئی 1998 ء میں بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا تھا تو اس وقت کے ڈیفنس منسٹر جارج فرنانڈس نے سرعام اعلان کیا تھا کہ چین ' بھارت کے لئے خطرہ نمبر ایک ہے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے بھارت نے مئی2007 ء میں اگنی iii کا کامیاب تجربہ کرلیا تھا اور اس میزائیل کی صلاحیت اتنی بتائی جاتی ہے کہ یہ چین کے تما م شہروں کو اپنے نشانے پر رکھ سکتا ہے ۔ ادھر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھی بھارت اور اسرائیل دونوں کے لئے حد درجہ تشویش کا باعث ہے۔ان تمام شواهد اور دلائل كو مد نظرركهكر قارئ اصل حقيقت كا خود ادراك كرسكتا هے كه كون كيا چاه رها هے
رائد الاختبار لنجاح الأبرار
رائد الاختبار لنجاح الأبرار
(الدليل الكامل للاختبار التنافسي)
FOR
NET,SET ,Ph.D, M. Phil
اعداد
معراج الدين الندوي
*ضع دائرة حول رمز الإجابة الصحيحة فيما يلي:
نحو وصرف وإملاء
1) قال تعالى :"كلا إن الإنسان ليطغى".اللام المتصلة بالفعل ( ليطغى ) في هذه الآية الكريمة
هي:
أ-لام التوكيد ب-لام الجر
ج-لام التعليل د-لام الأمر
2) تأنّ ولا تعجل بلومك صاحبا لعل له عذراً وأنت تلوم
( صاحبا ) في هذا البيت مفعول به منصوب:
أ-للفعل تأنّ ب-للفعل تعجل
ج-للمصدر ( لومك ) د-بفعل محذوف
3) قال تعالى : "وان تولوا فإنما عليك البلاغ"
( ما ) في هذه الآية الكريمة :
أ-موصولة ب-نافية
ج-كافة عن العمل د-استفهامية
4) ( كم كتاباً عندك؟ ), كم الاستفهامية في هذه الجملة تعرب :
أ-مبتدأ ب-مفعولاً به
ج-ظرف مكان د-مفعولاً فيه
5) الجملة التي فيها مصدر مؤول من الجمل التالية, هي :
أ-إن تدرس تنجح ب-وأن تدرسوا خير لكم
ج-ادرس بجد للنجاح د-دراستك سبب نجاحك
6) في قوله تعالى : " ما هذا بشرا " , ( ما ) هي:
أ-العاملة عمل ليس ب-النافية
ج-الموصولة د-الشرطية
7) الجملة التي فيها ( مَنْ ) شرطية من الجمل التالية, هي:
أ-من يفعل خيراً يجد خيراً ب-من فعل هذا
ج-أحب من يفعل الخير د-احترمه كائنا من كان
8) ( أنّى ) التي تفيد معنى الشرط وجازمة من الجمل التالية , هي :
أ-أنى تسافر أسافر ب-زرني أنىّ شئت
ج-أنى لك هذا الكتاب د-أنى تنجح دون استعداد
9) الجملة التي فيها (الواو) بمعنى العطف في الجمل التالية , هي :
أ-استيقظ الرجل و أذان الفجر ب-والله لأدرسن بجدّ
ج-غادر الجامعة وهو مسرور د-نجح زيد وإخوته
10) قال قيس بن الملوح :
أمضروبة ليلى على أن أزورها ومتخذ ذنباً لها أن ترانيا
تعرب ( ليلى ) في هذا البيت :
أ-نائب فاعل لاسم مفعول ب-خبر المبتدأ
ج-مضافاً إليه د-فاعلاً لفعل محذوف
11) اصل كلمة " ارتاب " هو :
أ-ارتوبَ ب-ارتياب
ج-ارتيب د-ارتببَ
12) كلمة " محيط " من الناحية الصرفية في قوله تعالى " والله محيط بالكافرين " هي :
أ-اسم فاعل ب-اسم مفعول
ج-صيغة مبالغة د-مصدر
13) نكشف في المعجم عن كلمة " يتركم " من قوله تعالى " ولن يتركم أعمالكم " تحت مادة:
أ-ترا ب-وتر
ج-يتر د-تار
14) " عمّ __________ عن النبأ العظيم " الكتابة الصحيحة للكلمة التي تملأ الفراغ في
الآية الكريمة :
أ-يتساءلون ب-يتسآلون
ج-يتسائلون د-يتسئلون
15) الكلمات الآتية صحيحة إملائياً عدا واحدة هي :
أ-السفلى ب-العليا
ج-بَطي ء د-دفيء
العروض
16) قال عبد المنعم الرفاعي في رثاء طه حسين :
ضوء عينيك أم هما نجمتان كلهم لا يرى وأنت تراني
هذا البيت جاء على وزن البحر :
أ-البسيط ب-الطويل
ج-الخفيف د-الرّمل
17) عينان كلتاهما في _____ ساهرة وتحت ثوب الدجى بالصمت تلتحف
الكلمة المناسبة لإكمال وزن هذا البيت من الكلمات التالية , هي :
أ-النهار ب-الظلام
ج-التفكير د-الليل
18) واضع علم العروض, هو :
أ-أبو الأسود الدؤلي ب-الخليل بن أحمد
ج-سيبويه د-أبو علي الفارسي
19) اختلاف حركة القافية في أحد أبيات القصيدة عن حركة الروي المستمر فيها , يسمى:
أ-الإكفاء ب-التضمين
ج-الإسناد د-الإقواء
20) ليس الجمال بمئزر فاعلم وان ردّيت بُردا
في التفعيلة الأخيرة من هذا البيت زاد مقطع طويل (-) وهذا يسمى في علم العروض
أ-الترفيل ب-الطيّ
ج-العصب د-التذييل
21) أول كتاب وصل إلينا في النقد هو :
أ-الوساطة ب-الشعر و الشعراء
ج-البيان و التبين د-طبقات فحول الشعراء
22) " إذا تعاجم شيء من القرآن فانظروا في الشعر, فإن الشعر عربي" مقولة ل :
أ-عبد الله بن عمر ب-عمر بن الخطاب
ج-عبد الله بن عمرو د-عبد الله بن عباس
23) يقول الجاحظ : " ... فإنما الشعر صناعة وضرب من النسيج وجنس من التصوير " .
الفكرة النقدية التي يمثلها هذا النص هي :
أ-بحور الشعر ب-الصناعة البيانية
ج-رواية الشعر د-الأغراض الشعرية
24) صاحب مقولة : " الشعر نكد بابه الشر , فإذا دخله الخير لان " هو:
أ-قدامة بن جعفر ب-القاضي الجرجاني
ج-العلوي اليمني د-(الأصمعي)
25) كتاب الموازنة كان يوازن بين :
أ-المتنبي والبحتري ب-المتنبي وخصومه
ج-(أبي تمام و البحتري) د-المتنبي و أبي تمام
26) ينسب الأخطل قوله : " الفرزدق ينحت من الصخر, وجرير يغرف من بحر " هذا القول
يرتبط بقضية نقدية هي:
أ-النقد الضمني ب-الإجازة
ج-الطبع والصنعة د-الصدق
27) الناقد الحديث الذي رأى أن قضية (السرقات) جَمّدت كثيراً من جهود النقاد القدماء هو:
أ-شوقي ضيف ب-مصطفى وهبي التل
ج-إحسان عباس د-(طه حسين)
28) إحدى الجمل الآتية غير صحيحة :
أ-كعب بن زهير بن أبي سلمى وأخوه بجير من شعراء مدرسة عبيد الشعر.
ب-من المؤثرات الخاصة في الأحكام النقدية عند ابن سلام ارتباط الشعر بالحرب.
ج-جعل ابن سلام الشعراء في طبقاته يتوزعون على (114)طبقة في كل طبقة أربعة شعراء.
د-من الأفكار النقدية التي عالجها حازم القرطاجني فكرة التخيل والمحاكاة.
29) " احتياج البيت للبيت الذي يليه ليكمل معناه " هذا تعريف مصطلح :
أ-التضمين ب-الخنذيذ
ج-الإجازة د-التحبير
30) إحدى الجمل الآتية صحيحة :
أ-مؤلف كتاب " الحيوان " هو عمرو بن بحر.
ب-من مجالات السرقة عند الجاحظ المعنى المألوف .
ج-تأثر ابن سلام بالثقافة اليونانية وأتضح ذلك في كتابه الطبقات.
د-اتفق الجاحظ مع الشعوبيين في أن العرب يتصفون بالعقل والفصاحة والعلم.
31) يسمي عبد القاهر النسق الذي تأخذه الكلمات في العبارة : وهو عنده مصدر الجمال
الذي يضفي على المفردات رونقاً وحسناً وبهاءً :
أ-النحو ب-التنقيح
ج-التشبيه المصيب د-النظم
32) تأثر نقد عبد العزيز الجرجاني في الوساطة بثقافته وعلمه ب :
أ-الصيرفة ب-الزجاج
ج-القضاء د-الولاية
33) تعريف الشعر عند قدامة بن جعفر ذكر العناصر الرئيسة المكونة له وهي:
أ-اللفظ والوزن والتصوير ب-الوزن والقافية والتصوير
ج-اللفظ والمعنى والوزن والقافية د-المعنى والقافية والنظم
34) من نقاد القرن الثالث للهجرة :
أ-عبد القاهر الجرجاني ب-الآمدي
ج-ابن خلدون د-الجاحظ
35) إحدى الجمل الآتية صحيحة :
أ-ينزع التفكير النقدي عند القاضي الجرجاني إلى الرومانسية في النظر إلى الشعر.
ب-يطلق عبد القاهر الجرجاني على توخي معنى النحو في معاني الكلمة مصطلح التخييل.
ج-الحطيئة من شعراء مدرسة عبيد الشعر المشهورين في العصر الجاهلي.
د-قدم الآمدي في موازنته كل البراهين على انتصاره لطريقة الوليد بن عبيد وازوراره عن
شعر حبيب بن أوس.
النقد الأدبي الحديث
36) كانت مجلة شعر تتميز بتوجهها النقدي :
أ-الاجتماعي ب-التاريخي
ج-الحداثي د-الرومانسي
37) الواقعية الاشتراكية مصطلح أطلقه :
أ-سانت بيف ب-مكسيم جوركي
ج-يونج د-شتراوس
38) التلقي منهج نقدي يقوم على :
أ-العناية بنفسية المبدع ب-التوقف عند لغة النص وأثرها
ج-تفكيك بنى النص وإعادة تركيبها د-الاهتمام باستجابة القارىء
39) سوسيولوجيا الأدب تعني :
أ-المنهج التأثيري ب-المنهج الواقعي
ج-المنهج التاريخي د-المنهج النفسي
40) مدرسة الديوان تتكون من :
أ-العقاد والمازني ب-العقاد وشكري
ج-العقاد وطه حسين د-العقاد والمازني وشكري
41) حسين مروّة ناقد :
أ-رومانسي ب-كلاسيكي
ج-بنيوي د-اجتماعي
42) بدايات النقد العربي الحديث تجلت على يد:
أ-حسين المرصفي ب-حسين مروّة
ج-العقاد د-الرافعي
43) النرجسية مصطلح نقدي يعني :
أ-الخوف ب-الاضطراب
ج-حب الذات د-حب الابن لأمه
44) من آراء " يونج " النقدية أن الأدب يعبر عن :
أ-النرجسية ب-الغريزة
ج-التسامي د-النماذج العليا
45) عبد السلام المسدي :
أ-ناقد اجتماعي ب-ناقد اسلوبي
ج-شاعر مغربي د-روائي أردني
46) ينسب البيت التالي ل :
أرى العيش كنزا ًناقصاً كل ليلة وما تنقص الأيام والدهر ينفد
أ-زهير بن أبي سلمى ب-لبيد بن ربيعة
ج-طرفة بن العبد د-المتلمس
47) قال الشاعر : فلولا ثلاث هن من عيشة الفتى وجدك لم أحفل متى قام عوّدي
المقصود بكلمة " ثلاث " :
أ-الأطلال والصيد والصحراء ب-المرأة والخمر والنجدة
ج-الموت والحياة والآخرة د-النصر والهزيمة والغزل
48) تقل المقدمات الغزلية في :
أ-شعر الرثاء ب-شعر المدح
ج-شعر الوصف د-شعر الهجاء
49) يقصد ب " سعد " في البيت التالي :
فأبنا وقد آمت نساء كثيرة ونسوة سعد ليس منهن أيم
أ-سعد بن معاذ ب-سعد بن عبادة
ج-سعد بن أبي وقاص د-سعد بن عمرو بن مالك
50) تعزى قلة الشعر في فتوح مصر والشام في صدر الإسلام إلى :
أ-أن معظم الفاتحين من القبائل الشمالية.
ب-أن معظم الفاتحين من القبائل اليمنية.
ج- أن معظم الفاتحين من أتباع الفرق الدينية.
د-تخلف الشعراء عن المشاركة في الفتوح.
51) تنسب فحولة الشعر في العصر الأموي إلى الشعراء الذين برعوا في:
أ-الصيد والغزل ب-المدح والهجاء
ج-الرثاء والوصف د-الوعظ والحكمة
52) وجدت ظاهرة الانعكاس في الغزل الحسي عند:
أ- الشاعر الأحوص ب-الشاعر الحارث بن خالد المخزومي
ج-عمر بن أبي ربيعة د-عبد الله بن قيس الرقيات.
53) قائل البيت التالي :
فقد كلم الله النبي محمداً على الموضع الأعلى الرفيع المسوّم
أ-حسان بن ثابت ب-عبد الله بن رواحة
ج-كعب بن مالك د-كعب بن زهير
54) يهتم الكميت بن زيد في دفاعه عن حق آل البيت في الخلافة :
أ-بالحجج والأدلة ب-بالأسلوب القصصي
ج-بالتاريخ القبلي د-بالنقل عن الآخرين
55) زهد أبي العتاهية بوجه عام :
أ-زهد إسلامي خالص ب-زهد متأثر ببعض الأفكار الهندية
ج-زهد متأثر ببعض الأفكار الفارسية د-يغلب عليه النفاق
56) في أسلوب الجاحظ في صياغة الجمل والتراكيب:
أ-صنعة فنية خفية ب-صنعة فنية واضحة
ج-عدم احتفال بالصيغة اللفظية د-يبدو نثره كالشعر
57) أسلوب أبي تمام في نظم الشعر :
أ-يعتني بالمعاني الجديدة واستخراجها ب-يعتني بأساليب الصياغة اللفظية
ج-يعتني بأساليب الصياغة اللفظية وموسيقاها د-يجمع بين العناية بالمعاني والتراكيب
58) من أبرز الموضوعات التي طرقها الشعر الاندلسي شعر الموشحات, وهو أندلسي
النشأة, منشىء هذا اللون من الشعر هو :
أ-ابن سناء الملك ب-ابن هانىء الاندلسي
ج-لسان الدين بن الخطيب د-ابن معافى القبري
59) تعد قصة حي بن يقظان للأديب والفيلسوف الاندلسي ابن طفيل من أكبر القصص
الفكرية في العصور الوسطي في نطاق الآداب العالمية. فمن نظائر هذه القصة بعد
ابن طفيل :
أ-قصة طرزان للكاتب الأمريكي أدغار
ب- قصة الولد المسيّب ل هوميروس
ج-رواية بجماليون ل توفيق الحكيم
د-أسطورة الصنم والملك وابنته ل ليون غوتيه
60) نبغ في العصور المتتابعة شعراء كثيرون من اشهرهم :
أ-تميم بن مقبل, كعب بن زهير, أبو ذؤيب الهذلي
ب- ديك الجن الحمصي, علي بن الجهم, بشار بن برد
ج-ابن منير الطرابلسي, ابن القيسراني, أسامة بن منقذ.
د- أبو الطيب المتنبي, أبو فراس الحمداني, العباس بن الاحنف
61) رائد المسرح الشعري في الأدب العربي الحديث هو :
أ-أحمد شوقي ب-عزيز أباظة
ج-توفيق الحكيم د-سعد الله ونوس
62) كتاب " الديوان في الأدب والنقد " من تأليف :
أ-العقاد وشكري ب-المازني والعقاد
ج-عبد الرحمن شكري د-العقاد
63) ظهر نشاط الأدب المهجري من خلال جماعتين هما:
أ-الرابطة القلمية وجماعة الديوان ب-الرابطة القلمية والعصبة الأندلسية
ج-جماعتا الديوان وأبولو د-أبولو والعصبة الأندلسية
64) باعث النهضة في الشعر العربي الحديث, ورائد مدرسة الإحياء هو:
أ-حافظ إبراهيم ب-أحمد شوقي
ج-خليل مطران د-محمود سامي البارودي
65) "عبث الأقدار" و "رادوبيس" و "كفاح طيبة" ثلاث روايات تاريخية ل ...... :
أ-جرجي زيدان ب-نجيب محفوظ
ج-توفيق الحكيم د-محمود تيمور
66) تمثل رواية ________ أول محاولة كاملة في كتابة القصة القصيرة بالمعنى الحديث
لها في رأي النقاد.
أ-عودة الروح ب-زينب
ج-قنديل أم هاشم د-حديث عيسى بن هشام
67) ولد المسرح العربي في لبنان على يد :
أ-مارون النقاش ب-يعقوب صنوع
ج-أبو خليل القباني د-سعد الله ونوس
68) الفن النثري الذي يجسد رؤية سرديّة فنيّة متكاملة هو:
أ-القصة القصيرة ب-الرواية
ج-المقالة د-المسرحية
69) ________ و ________ من التقنيات السردية التي هجرها كتاب الرواية :
أ-السّرد بضمير المتكلم والقطع المكاني ب-الاسترجاع والتداعي
ج-المذكرات والسّرد بضمير الغائب د-تيار الوعي والحلم
70) شخصية مختار القرية ورجل الإقطاع الظالم ومعظم رجال الدين في الرواية العربية هي
شخصيات
أ-سطحية ب-مسطحة
ج-نامية د-رئيسة
71) رائد المدرسة الشعرية الرومانسية في الأدب العربي هو:
أ-خليل مطران ب-احمد زكي أبو شادي
ج-جبران خليل جبران د-عباس محمود العقاد
72) " الغربال " و " النبي " هما على الترتيب ل :
أ-إيليا أبي ماضي و جبران ب-ميخائيل نعيمة وجبران
ج-جبران خليل جبران د-جبران ونسيب عريضة
73) رسولا حركة الشعر الحداثي في رأي النقاد هما :
أ-نازك الملائكة وبدر شاكر السياب ب-عرار ومحمود درويش
ج-البياتي والسياب د-البياتي ونازك الملائكة
74) العنصر الروائي الذي يكشف عن خصائص وطبيعتها هو:
أ-الوصف ب-لغة الرواية
ج-الحبكة د-الحوار
75) من ملامح التجديد في القصيدة عند خليل مطران :
أ-التشخيص ومزج النفس بالطبيعة
ب-انتزاع الصور من التراث القديم
ج-أصالة اللغة ودقتها
د-التزام الوزن ووحدة القافية
76) إتباع نظام السّطر الشعري, وعدم التقيّد بالقافية الواحدة, وتقسيم القصيدة إلى مقاطع
تمثل دفقات شعوريّة تلتزم الوزن,من سمات :
أ-الشعر المرسل ب-شعر التفعيلة
ج-الشعر المنثور د-الشعر العمودي
77) أولى مسرحيات توفيق الحكيم من نمط مسرح اللامعقول _____________ :
أ-شهرزاد ب-يا طالع الشجرة
ج-أمينوسا د-أهل الكهف
78) النقطة الفاصلة في القصة ولحظة التأزم التي تتدرج الحوادث قبلها صعداً ثم تبدأ بعدها
بالتصفية والكشف وصولاً إلى الخاتمة هي ____________
أ-الحبكة ب-العقدة
ج-الزمكانية د-المغزى
79) البعد الذي ترسم من خلاله الشخصية الروائية فيحدّد مستواها وحظها من التعليم
والثقافة هو:
أ-البعد المادي ب-البعد الاجتماعي
ج-البعد الأيديولوجي د-البعد النفسي
80) تتصف القصة القصيرة ب ___________
أ-التركيز والتكثيف
ب-امتداد الزمان ورحابة المكان
ج-تصويرها للشخصية من خلال أبعاد متعددة
د-الاسترسال في سرد الجزئيات والشخصيات ووصفها
البلاغة العربية
81) لعبد القاهر الجرجاني كتابان مهمان في البلاغة هما :
أ-"نهاية الإيجاز" و "دراية الإعجاز" ب-"معاني القرآن" و"أساس البلاغة"
ج-"دلائل الإعجاز" و "أسرار البلاغة" د-"سر الفصاحة" و "إعجاز القرآن"
82) أوّل من جعل البلاغة علماً كما يقال هو :
أ-الجاحظ ب-السكاكي
ج-القزويني د-أبو عبيدة
83) "ربنا آتنا في الدنيا حسنة وفي الآخرة حسنة"-الأمر هنا بمعنى :
أ-التوكيد ب-التسوية
ج-الامتنان د-الدعاء
84) أسرب القطا هل من يعير جناحه لعلي إلى من قد هويت أطير
الهمزة في "أسرب القطا" ل:
أ-النداء ب-الاستفهام
ج-التقرير د-التمني
85) "لله ما في السموات والأرض"
تقديم المسند "لله" على المسند إليه "مافي السموات" أفاد معنى :
أ-القصر ب-الفصل
ج-الوصل د-التقوية
86) "عليكم أنفسكم لا يضرّكم من ضّل إذا أهتديتم" – "عليكم أنفسكم" من قبيل :
أ-الخبر الطلبي ب-الإنشاء غير الطلبي
ج-الإنشاء الطلبي د-الخبر الابتدائي
87) وإذا المنية أنشبت أظفارها ألفيت كل تميمة لا تنفع
في البيت استعارة :
أ-تصريحية ب-تمثيلية
ج-مكنية د-لاشيء مما ذكر
88) "أيجب أحدكم أن يأكل لحم أخيه ميتاً فكرهتموه " – فيما تحته خط :
أ-استعارة ب-كناية
ج-تشبيه د-تورية
89) "وينزل لكم من السماء رزقا" فيما تحته خط في الآية مجاز مرسل علاقته:
أ-المسببية ب-السببية
ج-الجزئية د-المحلية
90) "أنا أفصح العرب بيد أني من قريش" في هذا الحديث لون بديعي هو:
أ-ردّ الأعجاز على الصدور ب-تأكيد الذم بما يشبه المدح
ج-تأكيد المدح بما يشبه الذم د-المقابلة والطباق
91) المعاجم التي تنتمي إلى منهج "التقليبات الصوتية" , هي :
أ-معجم العين, معجم الصحاح, معجم التهذيب, معجم لسان العرب
ب- معجم العين, معجم البارع, معجم التهذيب, معجم المحكم
ج-معجم اللسان , معجم مختصر العين , معجم الصحاح,معجم القاموس المحيط
د-معجم البارع , معجم العين , معجم التهذيب, مختصر العين , المحكم
92) المنهج الألفبائي المرتبط بالأبنية يعني أنه:
أ-جعل المواد على الترتيب الألفبائي,وصنف الكلمات في كل مادّة على تصنيف الخليل
ب-صنّف المواد حسب تقليبات الخليل وصنّف الكلمات حسب القافية.
ج-صنّف الحروف والكلمات حسب تقليبات الخليل.
د-صنّف الحروف والكلمات حسب الترتيب الألفبائي.
93) من الأعمال المعجميّة التي سبقت معجم العين :
أ-ما نسب إلى عمرو الشيباني ( كتاب الجيم , كتاب الخيل , كتاب الإبل )
ب-كتاب ( الجيم) المنسوب إلى أبي زيد الأنصاري.
ج-كتاب الجيم , وكتاب الخيل المنسوبان إلى الأصمعي.
د-كتاب الجيم,وكتاب المطر,وكتاب خلق الإنسان المنسوبة إلى أبي عبيدة.
94) تضمنّت الكتب الآتية : ( كتاب سيبوية , كتاب المقتضب للمبرد , كتاب الأصول في
النحو لابن السراج ) الموضوعات الآتية
أ-الأصوات , وتضمنت موضوعات نحوية وصرفية ودلالية.
ب-الصرف, وتضمنت موضوعات صوتية وصرفية ونحوية ودلالية
ج-النحو وتضمنت دراسة موضوعات صرفية صوتية ودلالية.
د-النحو والصرف ولم تهتم بالموضوعات الصوتية والدلالية.
95) تضمنت الكتب الآتية :(فقه اللغة لابن فارس, المزهر السيوطي, الخصائص لابن جنّي)
الموضوعات الآتية:
أ-نشأة اللغة , خصائص العربية , موضوعات لغوية متنوعة
ب-خصائص اللغات البشرية ,نشأة العربية , موضوعات لغوية
ج-تعريف اللغة العربية ,تعريف اللغة البشرية , خصائص العلوم
د-نشأة اللغات السامية, خصائص اللغات الشرقية , موضوعات لغوية
96) كتاب "سر صناعة الإعراب-لابن جنّي" ورسالة "أسباب حدوث الحروف لابن سينا"
مختصان:
أ-بعلم الاعراب في العربية ب-بعلم أصوات اللغة العربية
ج-بعلم صناعة النحو وبناء حروف الكلمات د-بكل العلوم العربية
97) من الموضوعات التي تضمنتها كتب التطوّر اللغوي عند العرب :
أ-القياس ,الاشتقاق, دراسة الوحدات الصغرى التمييزيّة عالمياً
ب- القياس ,الاشتقاق, النحت , معاني الكلمات عبر التاريخ.
ج-الاشتقاق , الأضداد , الترداف,والبلاغة في الكلمات,
د-التطوّر الصوتي , والصرفي, والنحوي, من خلال القياس و الاشتقاق والنحت, وعوامل التطور الأخرى.
98) بدأ الاهتمام بالدلالة عند العلماء الغربيين على النحو الآتي:
أ-عند "دي سور" من خلال العلاقة بين الدالّ والمدلول , ومن العلاقة السياقية بين الوحدات اللغويّة.
ب-عند مدرسة براغ من خلال وظائف الوحدات الدالة والوحدات الصغرى التمييزيّة "وظائف المقال".
ج-عند المقاميين "الاجتماعيين" من خلال دلالة المقام إضافة إلى "دلالة المقال"
د-اغفل السلوكيون "الدلالة الذهنيّة" واعتمدوا الدلالة الناتجة عن العلاقة بين المكونين المباشرين في الجملة المنطوقة
99) المثلث الدلالي يتكون من : ( دال/مدلول/مرجع(شيء):
أ-الدال هو الصورة المعنوية للوحدة اللغوية.
ب-المدلول هو الصورة الواقعية للوحدة اللغوية.
ج-العلاقة بين الدّال والشيء علاقة اعتباطية (وهي قائمة على معايير ثابتة)
د-لأنّ العلاقة بين الدال والشيء اعتباطيّة , فقد اختلفت الكلمات (الالفاظ التي تدلّ على شيء واحد) في اللغات.
100) علم اللغة المقارن يعني :
أ-ان تدرس اللغة في فصائلها ثم تجري المقارنة بينها بعد ذلك
ب-تكون المقارنة بين الفصائل أولاً ثم تكون دراسة اللغات بعد ذلك
ج-تكون الدراسة بمقارنة الثقافات من خلال دراسة اللغات
د-ان تدرس اللغة (صوتياً,صرفياً,نحوياً,دلالياً) من خلال مقارنتها بلغات الفصيلة (الأسرة) اللغوية الواحدة
Subscribe to:
Posts (Atom)