Powered By Blogger

Sunday, November 28, 2010

Meraj ud din nadvi: كلمات في الحق والصدق

Meraj ud din nadvi: كلمات في الحق والصدق

تقليد كي شرعي حيثيت


: تقلید کا لغوی معنی
تقلید کا معنی لغت میں پیروی ہے اور لغت کے اعتبار سے تقلید، اتباع،اطاعت اوراقتداءکے سب ہم معنی ہیں۔تقلید کے لفظ کا مادہ قلادہ ہے۔ جب انسان کے گلے میں ڈالا جائے تو ہار کہلاتا ہے اور جب جانور کے گلے میں ڈالا جائے تو پتہ کہلاتا ہے۔ ہم چونکہ انسان ہیں اس لیے انسانوں والا معنی بیان کرتے ہیں اور جانوروں کا جانوروں والا معنی پسند ہے۔
تقلید کا شرعی معنی
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ تقلید کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہے۔
تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل کے موافق بتلاوے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا “ ( الاقتصاد ص ۵)
تقلید کی تعریف کے مطابق راوی کے روایت کو قبول کرنا تقلید فی الروایت ہے اور مجتہد کی درایت کو قبول کرنا تقلید الدرایت ہے۔ کسی محدث کی رائے سے کسی حدیث کو صحیح یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے اور کسی محدث کی رائے سے کسی راوی کو ثقہ یا مجہول یا ضعیف ماننا بھی تقلید ہے۔ کسی امتی کے بنائے ہوئے اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ کو ماننا بھی تقلید ہے
تقلید جائز اور ناجائز
جس طرح لغت کے اعتبار سے کتیا کے دودھ کو بھی دودھ ہی کہا جاتا ہے اور بھینس کے دودھ کو بھی دودھ کہتے ہیں۔ مگر حکم میں حرام اور حلال کا فرق ہے اسی طرح تقلید کی بھی دو قسمیں ہیں۔ اگرحق کی مخالفت کے لئے کسی کی تقلید کرے تو یہ مذموم ہے جیسا کہ کفارومشرکین، خدا اور رسول الله صلي الله عليه وسلم کی مخالفت کےلئے اپنے گمراہ وڈیروں کی تقلید کرتے تھے۔ اگرحق پر عمل کرنے کےلئے تقلید کرے کہ میں مسائل کا براہ راستی استنباط نہیں کرسکتا اور مجتہد کتاب وسنت کو ہم سے زیادہ سمجھتا ہے ۔ اسلیے اس سے خدا و رسول الله صلي الله عليه وسلم کی بات سمجھ کر عمل کرے تویہ تقلید جائز اور واجب ہے ۔ٍ
کن مسائل میں تقلید کی جاتی ہے؟
صرف مسائل اجتہادیہ میں تقلید کی جاتی ہے اور حدیث معاذ ؓ(جس کو نواب صدیق حسن خان حدیث مشہور فرماتے ہیں۔ الروضہ الندیہ ج ۲ ص ۶۴۲) میں اجتہادیہ کے اصولوں سے کتاب وسنت سے مجتہد اخذ کرے گا۔
نوٹ: محدثین کا اصول حدیث بنانا، کسی حدیث کو صحیح، ضعیف کہنا کسی روای کو ثقہ یا مجروح قرار دینا بھی ان کا اجتہاد ہے۔
کن کی تقلید کی جائے ؟
ظاہر ہے مسائل اجتہادےہ میں مجتہد کی ہی تقلید کی جائے گی اور مجتہد کا اعلان ہے کہ قیاس مظہر لامثبت (شرح عقائد نسفی) کہ ہم کوئی مسئلہ اپنی ذاتی رائے سے نہیں بتاتے بلکہ ہر مسئلہ کتاب و سنت واجتماع سے ہی ظاہر کر کے بیان کرتے ہیں اور مجتہدین کا اعلان ہے کہ ہم پہلے مسئلہ قرآن پاک سے لےتے ہیں وہاں نہ ملے تو سنت سے، وہا ں نہ ملے تواجماع صحابہ ؓ سے ، اگر صحابہ ؓ میں اختلاف ہو جائے تو جس طرف خلفاءراشدین ہوں اس سے لیتے ہیں اور اگر یہاں بھی نہ ملے تو اجتہادی قاعدوں سے اسی طرح مسئلہ کا حکم تلاش کر لیتے ہیں۔ جس طرح حساب دان ہر نئے سوال کا جواب حساب کے قواعد کی مدد سے معلوم کر لیتا ہے اور وہ جواب اس کی ذاتی رائے نہیں بلکہ فن حساب کا ہی جواب ہوتا ہے۔
کون تقلید کرے؟
ظاہر ہے کہ حساب دان کے سامنے جب سوال آئے گا تو وہ خود حساب کے قاعدوں سے سوال کا جوا ب نکال لے گااور جس کو حساب کے قاعدے نہیں آتے وہ حساب دان سے جواب پوچھ لے گا ۔ اسی طرح مسائل اجتہادیہ میں کتاب وسنت پر عمل کرنے کے دو ہی طریقے ہیں۔ جو شخص خود مجتہد ہو گا وہ خود قواعد اجتہادیہ سے مسئلہ تلاش کر کے کتاب وسنت پر عمل کرے گا اور غیر مجتہد یہ سمجھ کر کہ میں خود کتاب و سنت سے مسئلہ استنباط کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ اس لیے کتاب و سنت کے ماہر سے پوچھ لوں کہ میں کتاب و سنت کا کیاحکم ہے۔ اس طرح عمل کرنے کو تقلید کہتے ہیں۔ اور مقلد ان مسائل کو ان کی ذاتی رائے سمجھ کرعمل نہیں کرتا بلکہ یہ سمجھ کر کہ مجتہد نے ہمیں مراد خدا اور مراد رسول ﷺ سے آگا ہ کیا ہے۔
غیر مقلد کی تعریف
نوٹ: (۱) مجتہد اور مقلد کا مطلب تو آپ نے جان لیا اب غیر مقلد کا معنی بھی سمجھ لیں کہ جو نہ خود اجتہاد کر سکتا ہو اور نہ کسی کی تقلید کرے یعنی نہ مجتہد ہو نہ مقلد۔ جیسے نماز باجماعت میں ایک امام ہوتا ہے باقی مقتدی۔ لیکن جو شخص نہ امام ہو نہ مقتدی، کبھی امام کو گالیاں دے کبھی مقتدیوں سے لڑے یہ غیر مقلد ہے یا جیسے مالک میں ایک حاکم ہوتا ہے باقی رعایا۔ لیکن جو نہ حاکم ہو نہ رعایا بنے وہ ملک کاباغی ہے۔یہی مقام غیرمقلد کا ہے۔
نوٹ: (۲) غیر مقلدین میں اگرچہ کئی فرقے اور بہت سے اختلافات ہیں۔ انتے اختلافات کسی اور فرقے میں نہیں ہیں۔ مگر ایک بات پر غیر مقلدین کے تمام فرقوں کا اتفاق او اجماع ہے وہ ےہ ہے کہ غیر مقلدوں کو نہ قرآن آتا ہے، نہ حدیث، کیونکہ نواب صدیق حسن خان، نواب وحید الزمان، میر نور الحسن، مولوی محمد حسین اور مولوی ثناء اﷲ وغیرہ نے جو کتابیں لکھی ہیں، اگرچہ وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے قران وحدیث کے مسائل لکھے ہیں، غیر مقلدین کے تمام فرقوں کے علماءاور عوام بالاتفاق ان کتابوں کو غلط قرار دے کر مسترد کر چکے ہیں بلکہ برملاتقریروں میں کہتے ہیں کہ ان کتابوں کو آگ لگا دو۔ گویا سب سے غیر مقلدین کا اجماع ہے کہ ہر فرقہ کے غیر مقلد علماء قران وحدیث پر جھوٹ بولتے ہیں انہیں قرآن وحدیث نہیں آتا وہ غلط گندے اور نہایت شرمناک مسائل لکھ لکھ کر قرآن وحدیث کا نام لے دیتے ہیں اس لیے وہ کتابیں اجماعاً مردود ہیں اور یہ سب جاہل ہیں۔
 لفظ تقلید کا ذکرقران وحدیث میں ہے یا نہیں؟
الجواب: قرآن پاک نے ان مقدس جانوروں کو جو خاص خانہ کعبہ کی نیاز ہیں، قلائدفرمایا ہے اور ان کی بے حد تعظیم وحرمت کا حکم فرمایا ہے اور ان مقلدین کے بے حرمتی کرنے والوں کو عذاب شدید کی دھمکی دی ہے ۔ البتہ کسی خنزیر، کتے وغیرہ و قلائد بنانے کی اجازت ہرگز نہیں دی ہے۔
نوٹ:(۱) اصول حدیث میں مرسل، مدلس، معضل، وغیرہ جس قدر اصطلاحی الفاظ محدثین نے استعمال کےے ہیں، ان الفاظ کا ان ہی اصطلاحی معنوں میں قرآن وحدیث میں ہونا ثابت فرما دیں یا اصول حدیث کا انکار کر دیں۔
نوٹ: (۲) سائل نے سوال میں صرف قرآن وحدیث کا ذکر کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ سائل اجماع کو دلیل شرعی نہیں مانتا۔ اگر واقعہ ایسا ہے تو سائل انکار اجماع کی وجہ سے دوزخی ہے اور سائل قیاس شرعی کو بھی دلیل نہیں مانتا تو اس کے بدعتی ہونے میں کچھ شک نہیں کیونکہ انکار قیاس کی بدعت نظام معتزلی نے جاری کی تھی۔
ائمہ مجتہدین کے اتباع کےلئے تقلید کا لفظ اسی اجماع اور تواتر کے ساتھ امت میں استعمال ہوتا چلا آرہا ہے جس طرح اصول حدیث، اصول تفسیر، اصول فقہ، قواعد صرف و نحو تواتر کے ساتھ مستعمل ہیں۔ محدیثن کے حالات میں جو کتابیں محدثین نے مرتب فرمائی ہیں وہ چار ہی قسم کی ہیں۔ طبقات حنفیہ، طبقات شافعیہ، طبقات مالکیہ، اورطبقات حنابلہ، طبقات غیر مقلدین نامی کوئی کتاب کسی محدث نے تحریر نہیں فرمائی۔
 کیا قرآن و حدیث میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید کرو؟
الجواب قران پاک میں قرآن کی تلاوت کا حکم موجود ہے مگر ان دس قاریوں کا نام مذکور نہیں جن کر قراءتوں پر آج ساری دنیا تلاوت قرآن کر رہی ہے اور نہ یہ حکم ہے کہ ان دس قاریوں میں سے کسی ایک قاری کی قراءة پر قرآن پڑھنا ضروری ہے مگر ہمارے ملک پاک وہند میں سب مسلمان قاری عاصم کوفی ؒ کی قرآة اور قاری حفص کوفی ؒ کی روایت پر قرآن پڑھتے ہیں۔ آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں واضح فرمائیں کہ ساری زندگی ایک قرات پر قرآن پڑھنا کفر ہے یا شرک یا حرام یا جائز۔
اسی طرح کتاب وسنت سے سنت کا واجب العمل ہونا ثابت ہے مگر نام لے کر بخاری ،مسلم، نسائی، ابودادو، ترمذی، ابن ماجہ کو صحاح ستہ نہیں کہا گیا۔ نہ بخاری و مسلم کو صحیحین کہا گیا۔ نہ بخاری کو اصح الکتاب بعد کتاب اﷲ کہا گیا جس طرح ان دس قاریوں کا قاری ہونا اجماع امت سے ثابت ہے، اسی طرح ان چاروں اماموں کا مجتہد ہونا اجماع امت سے ثابت ہے اور مجتہد کی تقلید کا حکم کتاب وسنت سے ثابت ہے۔
نوٹ: سائل نے یہ سوال اصل میں شیعہ سے سرقہ کیا ہے کیونکہ کوئی اہل سنت یہ سوال نہیں کرتا، شیعہ کے ان سوالات کا ذکر ابن تیمیہ ؒ نے منہاج السنہ میں کیا ہے اور بعض کا ذکر شاہ عبدالعزیز صاحب محدث دہلوی ؒ نے تحفہ اثنا عشریہ میں کیاہے۔ اس ملک میں جب انگریز آیا اور اس نے لڑاو اور حکومت کرو کی پالیسی کو اپنایا تو یہاں غیر مقلدین کا فرقہ پیدا ہوا جس کا مشن یہ تھا کہ انگریز کے خلاف جہاد حرام اور مسلمانوں کی مساجد میں فساد فرض۔ یہاں تک کہ سب مسلمان مکہ اور مدینہ کو مرکز اسلام مانتے تھے۔ ان مراکز اسلام سے جب اس فرقہ کے بارے میں فتوی لیا گیا تو انہوں نے بالاتفاق ان کوگمراہ قراردیا۔(دیکھو تنبیہ الغافلین) ان لوگوں نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ سے مایوس ہو کر یمن کے زیدی شیعوں کی شاگردی اختیار کی لی اور قاضی شوکانی، امیر یمانی کے افکار کو اپنالیا۔ وہاں سے ہی یہ سوالات درآمد کیے گیے اوراہل اسلام کے دل میں وسوسے ڈالے گئے اور یہ ایک اٹل حقیقت ہے ۔آج تک اسی بدعتی فرقہ کہ یہ جرات نہیں ہوئی کہ ان سوالات کو مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے مفتی صاحبان کے سامنے پیش کر کے فتوی حاصل کریں کیونکہ ان کو کامل یقین ہے کہ وہاں سے سوالات کا جواب ہمارے خلاف آئے گا۔
اب سوال یہ ہے کہ شیعہ کو ایسا سوال کیوں کرنا پڑا۔ اس کی وجہ یہ ہوئی کہ شیعہ اپنے بارہ اماموں کو منصوص من اﷲ مانتے ہیں اس لیے اہل سنت و الجماعت نے ان باره کے ناموں کی نص پیش کرنے کا مطالبہ کیا۔ شیعہ اپنے ائمہ کے بارے میں نص پیش نہ کر سکے تو لا جواب ہو کر اہل سنت و الجماعت سے مطالبہ کر دیا کہ تم چاروں اماموں کے نام نص پیش کرو حالانکہ اہل سنت الجماعت ائمہ اربعہ کو منصوص من اﷲ مانتے ہی نہیں تو نص کا مطالبہ ہی غلط ہے ۔ ہاں ہم اہل سنت و الجماعت باجماع امت ان کا مجتہد ہونا مانتے ہیں۔
 چاروں اماموں سے پہلے جو لوگ گزرے ہیں مثلاً صحابہ کرام ؓ سے لے کر امام ابو حنیفہؒ تک یہ لوگ کس امام کی تقلید کرتے تھے۔ یا اس وقت تقلید واجب نہ تھی؟
الجواب: یہ سوال بھی کسی اہل سنت والجماعت محدث یا فقیہ نے پیش نہیں کیا بلکہ یہ سوال بھی شعیہ کی طرف سے اٹھا تھا۔ صحابہ کرام ؓ کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی۔ شاہ ولی اﷲ ؒ فرماتے ہیں۔ “صحابہ کے دو گروہ تھے۔ مجتہد اور مقلد” (قرة العینین) یہ سب صحابہ ؓ عربی داں تھے لیکن بقول ابن القیم ان میں اصحاب فتوی صرف 149 تھے۔جن میں سے سات مکثرین میں ہیں۔ یعنی انہوں نے بہت زیادہ فتوے دئیے۔20 صحابہ متوسطین میں ہیں۔ جنہوں نے کئی ایک فتوے دیے۔ اور 122 مقلین میں ہیں جنہوں نے بہت کم فتوے دئیے۔ ان مفتی صحابہ کرام ؓ کے ہزاروں فتاوی مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق، تہذیب الآثار، معانی الآثار وغیرہ حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں۔ جن میں مفتی صاحبان نے صرف مسئلہ بتایا، ساتھ بطور دلیل کوئی آیت یا حدیث نہیں سنائی اور باقی صحابہؓ نے بلا مطالبہ دلیل ان اجتہادی فتاوی پر عمل کیا اسی کا نام تقلید ہے۔ ان مفتی صحابہؓ کے بارے میں شاہ ولی اﷲ ؓ فرماتے ہیں:۔
ثم انہم تفرقوا فی البلاد صار کل واحد مقتدی ناحیة منالنواحی
کہ صحابہ متفرق شہروں میں پھیل گئے اور ہر علاقہ میں ایک ہی صحابی کی تقلید ہوتی تھی۔ ( الانصاف ص ۳)
مثلاً مکہ میں حضرت ابن عباس کی، مدینہ میں حضرت زید بن ثابت، کوفہ میں حضرت عبد اﷲ بن مسعود ؓ، یمن میں حضرت معاذ اور بصرہ میں حضرت انس کی تقلید ہوتی تھی۔ پھر ان کے بعد تابعین کا دور آیا تو شاہ ولی اﷲمحدث دہلوی فرماتے ہیں:۔
فعند ذالک صار لکل عالم من التابعین مدہب علی حیالہ فانتصب فی کل بلد امام
یعنی ہرتابعی عالم کا ایک مذہب قرار پایا اور ہر شہر میں ایک ایک امام ہوگیا۔ لوگ اس کی تقلیدکرتے۔ (الانصاف ص ۶)
صدر الائمہ مکی فرماتے ہیں کہ حضرت عطاءخلیفہ ہشام بن عبد الملک کے ہاں تشریف لے گئے تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماءکو جانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں تو خلیفہ نے پوچھا کہ آپ شہروں کے علماءکو جکانتے ہیں؟ انہوں نے فرمایا ہاں تو خلیفہ نے پوچھا اہل مدینہ کے فقیہ کون ہیں؟ فرمایا نافع، مکہ میں عطا،یمن میں یحییٰ بن کثیر، شام میں مکحول، عراق میں میموں بن مہران، خراسان میں ضحاک، بصرہ میں حسن بصری، کوفہ میں ابراہیم نخعی،(مناقب موفق ص ۷) یعنی ہر علاقہ میں ایک ہی فقیہ کے فقہی فتاوی پر عمل درآمد ہوتا تھا۔ یہ واقعہ امام حاکم نے بھی معرفت علوم حدیث میں لکھا ہے۔ اس لیے امام غرالی ؒ فرماتے ہیں: ”تقلید پر سب صحابہ کا اجماع ہے کیونکہ صحابہ میں مفتی فتوی دیتاتھا اور ہر آدمی کو مجتہد بننے کےلئے نہیں کہتا تھا اور یہی تقلید ہے اور یہ عہد صحابہؓ میں تواتر کے ساتھ ثابت ہے“۔ ( المستصفی ج 2 ص385)
علامہ آمدی فرماتے ہیں صحابہ اور تابعین کے زمانے میں مجتہدین فتوی دیتے تھے مگر ساتھ دلیل بیان نہیں کرتے تھے اور نہ ہی لوگ دلیل کا مطالبہ کرتے تھے اور اس طرز عمل پر کسی نے انکار نہیں کیا، بس یہی اجماع ہے کہ عامی مجتہد کی تقلید کرے۔ شاہ ولی اﷲ ؒ شیخ عزالدین بن سلام ؒ سے نقل کرتے ہیں۔
انا الناس لم یزالوا عن زمن الصحابة ؓ الی ان ظہرت المذاہب الا ربعة یقلدون من اتفق من العلماءمن غیر نکیر میں ایع یعتبر انکارہ، ولو کان ذالک باطلا لا نکروہ (عقد الجید ص 36)
اور خود فرماتے ہیں:۔
فہذا کیف ینکرہ احد مع ان الاستفناءلم یزل بین المسلمین من عہد النبی ﷺ والا فرق بین ان یستفتی ہدا دائما ویستفتی ہذا حینا بعد ان یکون مجمعا علی مادکرناہ (عقد الجید ص39)
یعنی دور صحابہ ؓ وتابعین سے تقلید تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور اس دور میں ایک شخص بھی منکر تقلید نہ تھا چونکہ ان صحابہؓ اور تابعین ؒ کی مرتب کی ہوئی کتابیں آج موجودنہیں جو متواتر ہوں۔ہاں ان کے مذاہب کو ائمہ اربعہ نے مرتب کردایا تو اب ان کے واسطہ سے ان کی تقلید ہو رہی ہے جیسے صحابہؓ و تابعین ؒ بھی یہی قران پاک تلاوت فرماتے تھے مگر اس وقت اس کا نام قراة حمزہ نہ تھا۔ صحابہؓ وتابعین ؒ بھی ےہی احادیث مانتے تھے مگر رواہ البخاری اور رواہ مسلم نہیں کہتے تھے۔یہ سوال سائل کا ایسا ہی ہے جیسے کوئی کہے کیا دس قاریوں سے پہلے قرآن نہیں پڑھاجاتا تھا؟ یا صحابہؓ وتابعین ؒ میں نہ کسی نے بخاری پڑھی نہ مشکوة۔ کیا اس زمانہ میں حدیث کا ماننا اسلام میں ضروری نہ تھا؟
 کیا چاروں اماموں کے بعد کوئی مجتہد پیدا نہیں ہوا ؟ اور اب کوئی مجتہد پیدا ہو سکتا ہے یا نہیں؟
الجواب: یہ سوال تاریخ سے تعلق رکھتا ہے۔شاہ ولی اﷲ صاحب محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں۔“300ھ کے بعد کوئی مجتہد مطلق پیدا نہیں ہوا ” اورا مام نوویؒ نے بھی شرح مہذب میں یہی فرمایا ہے ۔ اب مجتہد مطلق کا آنا تو محال شرعی ہے نہ ہی محال عقلی ہاں محال مادی ہے۔ لیکن وہ آ کر کیا کر ے گا؟ کیا اگر آج کا محدث دعوی کر کے ساری صحیح بخاری کو غلط قرار دے اور حدیث اور محدثین کی عظمت کو ختم کرے تو اس سے دین کا کیا فائدہ ہوگا ۔ اسی طرح کو ئی مجتہدین بن کر پہلے سارے علمی سرمائے سے اعتماد ختم کر ے تو کیا فائدہ ہوگا؟
ایک امام کی تقلید واجب ہو نے کے کیا دلائل ہیں؟ اورواجب کی تعریف اور حکم بھی بیان کریں؟
الجواب: اس ملک میں یہ سوال ہی غلط ہے کیونکہ جیسے یمن میں صرف حضرت معاذ مجتہد تھے اور سب لوگ ان کی تقلید کرتے تھے اسی طرح اس ملک میں مدارس، مساجد ، مفتی صرف اور صرف سیدنا امام اعظم ابو حنیفہؒ کے مذہب کے ہیں۔ دوسرے کسی مذہب کے مفتی موجود ہی نہیں کہ عوام ان سے فتوی لیں۔ اس لیے یہاں تو ایک ہی امام کے پیچھے ساری نمازیں پڑھنی واجب ہیں،۱ یک ہی ڈاکٹر ہو سب اسی سے علاج کرواتے ہیں۔ ایک ہی قاری ہو سب اسی سے قرآن پڑھ لیتے ہیں اس لیے یہاں ایک ہی امام کی تقلید واجب ہے جیسے مقدمتہ الواجب واجب کہاجاتا ہے۔ اس کے بغیر دین پر عمل کرنا ناممکن ہے کوئی شخص ایک رکعت نماز بھی نہیں پڑھ سکتا اور تارک اس تقلید کا فاسق ہے ۔ شاہولی اﷲ محدث دہلوی ؒ فرماتے ہیں اور صاحب جمع الجوامع فرماتے ہیں کہ ” عامی پر ایک امام کی تقلید واجب ہے“ (عقد الجید ص 50) اور دلیل اس کی اجماع ہے۔ (الاشباة ص143)
 امام ابو بوسفؒ اور امام محمدؒ امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد ہیں اور آپ کی تقلید بھی کرتے ہیں مگر انہوں نے بہت سے مسائل میں امام صاحب کی مخالفت کیوں کی؟
الجواب: امام ابو یوسف اور امام محمد یہ دونوں حضرات خود مجتہد فی المذہب ہیں اور مجتہد کو دوسرے مجتہد کی تقلید واجب نہیں ہوتی۔ ہاں اگر اپنے سے بڑے مجتہد کی تقلید کرے تو جائز ہے۔
 کیا کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کا حکم دیا ہے؟
الجواب: ائمہ اربعہ کے اقوال مختلف کتابوں میں موجود ہیں جن میں ان حضرات نے واضح طور پر کہا ہے کہ ہماری ہر اس بات کو مانو جو قرآن وسنت کے موافق ہواور جو خلاف ہو جائے اس کو مت مانو۔ مطلب یہ ہو ا کہ وہ اپنے اقوال کی ترغیب دے رہے ہیں اور یہ بھی بتا رہے ہیں کہ ان کے اقوال قرآن وسنت کے موافق ہیں اور قرآن وسنت کی مخالفت نہیں کرتے پس اس سے ان کی تقلید کی حکم ان کے اپنے اقوال سے ثابت ہوا۔
 جو لوگ چاروں اماموں میں سے کسی امام کی تقلید نہیں کرتے۔ ان کے بارے میں کیا حکم ہے؟
الجواب: موجودہ دور میں جو لوگ ائمہ اربعہ میں سے کسی اےک امام کی تقلید نہیں کرتے وہ فافق ہیں۔ اہل سنت والجماعت سے خارج ہیں اور حرمین شریفین کے فتووں کے مطابق ان پرتعزیز واجب ہے۔
مسئلہ تقلید پر بے شمار کتابیں موجود ہیں۔ چند ایک نام لکھ دیتا ہوں۔
(۱)تقلید کی شرعی حیثیت (۲) الکلام المفید فی اثبات التقلید (۳)تقلید ائمہ اور مقام ابو حنیفہؒ
(۴) الاقتصاد (۵) تنقیح (۶) خیر التنقید
(۷) اجتہاد اور تقلید (۸) تقلید شخصی (۹) توفیر الحق
(۱۰) تنویر الحق (۱۱) تحفہ العرب والعجم (۱۲) تقلید اور امام اعظم
(۱۳) سبیل الرشاد (۱۴) ادلہ کاملہ (۱۵) ایضاح الادلہ
(۱۶) مدارالحق بجواب معیاد الحق (۱۷) نتصار الحق بجواب معیار الحق (۱۸) تنقید فی بیان التقلید
وغیر ہ وغیرہ۔

:آخري بات 

جو شخص مجتہد نہ ہو اس پر واجب ہے کہ ائمہ اربعہ (امام ابوحنیفہ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) میں سے کسی ایک کی تقلید واتباع کرے، قرآن، حدیث، اجماع امت اور قیاس چاروں دلیلوں سے اس کا وجوب ثابت ہے، اور ائمہ اربعہ ہی کی تقلید کرنا کوئی امر عقلی یا شرعی نہیں ہے بلکہ اتفاقی ہے، مشیتِ خداوندی سے ان چار مذاہب کے سوا اور جتنے مذاہب تھے سب مندرس يا ختم ہوگئے کیوں کہ دس بیس پچاس یا سو مسائل اگر کچھ مجتہدین سے منقول ہیں تو وہ مستقل مذہب نہیں بن سکتے اور اگر ان سو پچاس مسائل میں ان کی تقلید بھی کرلی تو دیگر مسائل میں کیا کریں گے، جب چاروں مذاہب کے علاوہ کل مذاہب کالعدم قرار پائے تو تقلید ان چاروں مذاہب میں منحصر ہوگئی۔ آپ مفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ کی تصنیف تقلید کی شرعی حیثیت نیز حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی قدس سرہ کی تالیف [اجتہاد وتقلید کا آخر فیصلہ] کتابیں منگواکر خوب اچھی طرح مطالعہ کرلیں۔

معراج الدين ندوي