Powered By Blogger

Wednesday, December 1, 2010

تہذیبی ٹکراو....مغرب کا انجام

تہذیبی ٹکراو....مغرب کا انجام


  تہذیب کا وجودقوت ،معیشت اور ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیںہے۔قرآنِ حکیم نے بصراحت یہ وضاحت کی ہے کہ جن تہذیبوں کو ہلاک کیاگیا انہوں نے علاقوں اور ملکوں کو فتح کیا ،ان کو تعمیر کیا اور اس کے بعد پھر فسق و فجور اور سرکشی اختیار کی ۔علّامہ اقبال نے اس کو بڑی خوبصورتی سے نظم کیا ہے
 اگر تہذیبوں کی موت وحیات کی نشو و نما اور زوال و انحطاط وہی ہے جس کا تذکرہ ہمیں قرآنِ حکیم میں ملتا ہے (اور یقینا وہی ہے) اور جس کی طرف حکیم الامت علّامہ اقبالؒ نے اپنے منظوم کلام میں یوں اشارہ کیا ہے کہ:
جہاں تک مغرب کی اندرونی بربادی کا تعلق ہے جس کو وہ ملمع کر کے دنیا کے ظاہربینوں کے سامنے پیش کرتا رہتا ہے ،حالانکہ اس بربادی کا رونا مغرب کے اہل دانش و فلسفہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے رو رہے ہیں وہ مغرب کے المناک اور درد ناک مستقبل کے موضوع کو لے کرپریشانی اور سراسیمگی کی حالت میںمستقل لکھ رہے ہیں ،یہ تہذیب پانچ صدیوں سے اتنی خونخوار اور انسان دشمن بن چکی ہے کہ کسی کو ہیروشیما بناتی ہے ،کسی کو ناگاساکی بناتی ہے ، کسی کو فالوجہ، افغان و عراق کے ذکر خیر سے تو اللہ ہی حافظ ہے۔
اس امر کی حقیقت تو تب ظاہر ہوگی جب کوئی صلاح الدین ایوبی ،کوئی ٹیپوسلطان ،کوئی سلطان محمد اور کوئی مہدی سوڈانی سامنے آئے گا ۔اس وقت مغرب کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی قوت میدان میں موجود ہے ،جس کے پاس قوت وطاقت کے معروف وسائل وذرائع میں سے کوئی ذریعہ یا وسیلہ نہیں ہے ،لیکن اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغربی تہذیب کو زمین بوس کرنے کےلئے ایک نحیف و ناتواں لیکن منظم و متحد طاقت و قوت بھی کافی ہے اور اگر کوئی قوی مد مقابل آجائے تو یہ دھڑام سے گرے گی ۔
جہاں تک اسلامی تہذیب و ثقافت کی اندرونی حالت کا تعلق ہے تو اس کا مقابلہ اور موازنہ اگر مغربی تہذیب و ثقافت کی حالت سے کیا جائے تو اسلامی تہذیب کی حالت بہت اعلیٰ اور عمدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نظیر و بے مثال بھی ہے ۔
ہمارے آج کے بعض دانشور حضرات خوف زدہ ہیں ، وہ ان قوتوں کا نام لینا گویا اپنے آپ کوموت کی دہلیز پر پہنچانے کے برابر تصور کرتے ہیں ،بعض دوسرے مایوسی کے دلدل میں غوطہ زن ہیں لیکن قرآن حکیم کی روشنی میں امید کی یہ کرن دور دور سے عیاں ہوکر یہ نوید سنا رہی ہے کہاہل مغرب اور ان کی مادی قوت ، اسلحہ ، ترقیات ، قوت ومعیشت اور ابلاغی گرفت جو ہرعام و خاص کے بیڈروم تک پہنچ رکھتی ہے ،ان سب کے مقابلے میںایک خفیہ قوت ہے جو ظاہری نگاہوں سے اوجھل ہے خصوصا ان دانشوروں اور عام لوگوں کی نظروں سے ،جو ہر برائی اور اچھائی کو مغربی دوربین سے دیکھتے ہیں ،لیکن اگر ایمانی دوربین اور فراستِ مومن کی دُوربین سے دیکھا جائے تو ان سب مادی ،معاشی،اور ابلاغی قوتوں کا مقابلہ اسلامی تہذیب ہی کررہی ہے اور اس کی چمک دمک کا ظہور ہونے ہی والا ہے ۔ لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ۔
ہمارے چارہ گر ، اور بعض نادان اور بد نیت ، مسلمانوں کو اس تہذیبی جنگ میں یہ حلبتاتے ہیںکہ اسلامی تہذیب و ثقافت میں اصلاح کے نام سے کوئی ایسی کاٹ چھانٹ کرو کہ اسے جدید دور کے روشن خیال اور اعتدال پسند مسلما ن بھی آسانی کے ساتھ قبول کرلیں اور رجعت پسند اور بنیاد پرستوں کےلئے بھی کوئی اعتراض کرنے کا موقعہ ہاتھ نہ آئے اور ہمارا دشمن بھی مطمئن ہو جائے۔حالانکہ ہم جو توقعات رکھتے ہیںکہ ایسا کرنے سے اسلام دشمن مطمئن ہوجائیںگے ،تو یہ توقع ایک سراب ہے ،بلکہ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے ،یہ توقع پوری انسانی تاریخ سے حاصل ہونے والے سبق کے خلاف اور ضد ہے ، مغرب مسلمانوں کی کسی تشریح اور تاویل سے مطمئن نہیں ہوگا ،خود مغربی میڈیا اور ذرائع اطلاعات اور حکومتی حلقوں اور اداروں کے اعتراضات کے باوجود کہ بش اور بلیرنے خالص جھوٹ بول کر نہتے افغانستان اور بے قصور عراق پر حملہ کیا ہے ،مگر اس کے باوجود وہ اپنی جارحیت سے بازنہیں آئے بلکہ تباہ کاری کے ہتھیاروںکے الزام کے بعد انہوں نے جمہوریت کے نام سے اپنی جارحیت اور بربریت کو آگے بڑھایا ۔
مغربی تہذیب کے علمبرداروں اور اسلام کے دشمنوں نے اپنے مقاصد کےلئے اپنے منظورِ نظر لوگوں اور دوستوںکے قتل تک کا ارتکاب کرنے میں ذرہ برابر تامل سے کام نہیں لیا ،جنرل ضیاءالحق اور رفیق حریری کو انہوں نے قتل کرایا ۔جن ملکوں میں انہیں کام کرنا ہوتا ہے وہاں اگر ان کے مقاصد اور اہداف ٹھنڈے پڑجاتے ہیں تو وہ وہاں کسی بڑی شخصیت کے قتل کرنے میں اپنے مقاصد کا حصول تصور کرتے ہیں ۔اس وقت پاکستان کی ایٹمی قوت ان ظالموں کی نگاہوں میں ہے وہ وہاںفرقہ واریت کے ذریعہ بدامنی پھیلا کر ایک تو دہشت گردی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں ،دوسریہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایٹم بم ان لوگوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے ۔
ا لغرض مغرب مسلمانوں کی کسی لچک اور کسی تشریحِ اسلام سے مطمئن ہونے کے لئے تیار نہیں ہے ،اور نہ ہی اس کے لئے وہ کبھی تیار ہوگاکہ اس کے (مغرب)ہوتے ہوئے اسلام کا عدل و انصاف دنیا میں قائم ہو ،چونکہ قرآنِ حکیم میں اس بات کی طرف بہت ہی عمدہ طریقہ سے اشارہ کیا گیا ہے کہ یہود و انصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے الا یہ کہ تم ان کے تابع ہوجا ۔قرآنی نقطئہ نظر سے شیطانی تہذیب و یلغاراور اس کی شر انگیزیوں سے محفوظ ہونے یا رہنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عالمی قوتوں کے مقابلہ میں عدل و انصاف پر مبنی قوت کو قائم کیاجائے جس کی پکڑ ہر اس ظلم و طغیان پر ہو جو دنیا میں انسانیت اور انسانی اقدار کے لئے مضر اور پر خطر ہو ۔
 جو دانشور حضرات نورِ رب سے کائنات کی ہر شے کو دیکھتے ہیں ان کا ایمان ہے کہ مغرب کی شیطانی تہذیب کا زوال مقدر ہے وہ روما سے اٹھی ،پھر فرانس میں پناہ لے لی ،پھر برطانیہ کے جزیرے میںجا بسی،پھر یورپ سے روس کی طرف آئی اور اب اس کی رہائش اور آماجگاہ امریکا میں ہے اور امریکانے وہ عمل یاکرتوت شروع کر دیے ہے جو نوح علیہ السلام سے ادھر تمام شیطانی تہذیبوں کی ہلاکت وبربادی کا سبب ہوتا رہا ہے ،یعنی مادی ترقی کے نشہ میں اللہ کی زمین کو فتنہ و فسادسے بھر دینا اور جنگی قوت کا بے دریغ استعمال ،ترقیات کے بعد خدا کی مخلوق میں فسق وفجور پھیلانا اور آخر میں ظلم و عدوان کی حدیں بھی پامال کرنا اورکتنی ہی تہذیبوں کو ہم نے نوح کے بعد تباہ و برباد کیا کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی بدکاریوں سے اچھی طرح باخبر ہے۔(۷۱ ۔۱۷)
اس بات سے شاید ہی کوئی ذی حس اور عقل و خرد کا مالک انکار کرے کہ تاریخِ عالم میںصرف ایک ہی تہذیب ہے جس نے دنیاکی تمام تہذیبوں پر خوشگواراثر چھوڑا ہے جس میں پوری انسانیت نے امن وسکون اور راحت کا سانس لیا اور وہ اسلام کی آفاقی اور روحانی تہذیب ہے آج اگر ہم حقیقت کے اصولوں پر مغربی تہذیب کو پرکھنا چاہیں گے تو ہم مغربی تہذیب کو اندر سے کھوکھلی پائیں گے جس سے ایک معمولی ربانی جھٹکے کی ضرورت ہے ۔تہذیب و تمدن کے معاملے میں ہمارے علماءاور دانشور حضرات نہایت ہی سطحی امور کوزیرِ بحث لاتے ہیں مثلا داڑھی ،مونچھ ،لباس کی تراش وخراش وغیرہ اور جن چیزوں کی وجہ سے ایک تہذیب دوسری تہذیبوں پر اثرانداز ہوتی ہے یا جن پر وہ غلبہ پا کر دوسری تہذیبوں کو اپنا غلام اور باندھی بناتی ہے اس سے امت کی اکثریت بے خبر و لاپرواہ ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی مفر نہیں ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے غلبہ کے آثار دن بدن روزِ روشن کی طرح عیاں ہورہے ہیں ،بقولِ مولانا مودودیؒ کے کہ سو شلزم کو ماسکو میں اور سرمایہ داری کو واشنگٹن میں پناہ نہ ملے گی۔سوشلزم تو ماسکوسے ختم ہوگیا اور سرمایہ داری کا قبرستان ہموار ہورہا ہے ،میں اس میںذر ااضافہ کرتا ہو کہ روما ،فرانس ، برطانیہ، ماسکو اور واشنگٹن میں پناہ لینے والی مغربی تہذیب کو شاید اب زمین کے کسی اور مرکز میں پناہ نہ ملے۔یہ تہذیب اب امریکہ میں خودکشی کرے گی کیونکہ اس نے دنیا میں شر وفساد کی تمام حدیں پھلانگ دی



ہیں ۔




و اس بات کا برملا اظہار کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کی شیطانی تہذیب چار یا پانچ سو سال سے تن تنہا اس وسیع وعریض کائنات پر ناچ رہی ہے ا ور دنیا کو اپنے اشارہ پر جس رُخ پر ڈالنا چاہتی ہے اس رُخ پر اس کو بلا خوفِ تردید ڈال دیتی ہے کیونکہ اس کے گرنے کے بظاہر آثار دور دور تک سجھائی نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی کوئی بیرونی خطرہ،کوئی قوت(واعدولھم ) اور کوئی ترقی (اعلیٰ معیشت)اس کے خلاف میدان میں موجود نہیں ہے ۔

فلسطین لہولہان....... دنیائے اسلام ذمہ داریاں نبھائے

فلسطین لہولہان....... دنیائے اسلام ذمہ داریاں نبھائے
!
عبدالرحمن السدیس
امام و خطیب مسجد الحرام مکہ مکرمہ

مترجم : معراج الدین ندوی
حمد و ثنا کے بعدمسلمانو! سختیوں اور آسانیوں اور تنگ دستیوں ہر حال میں خدا خوفی کے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھو، اور صبح و شام تقویٰ ہی کی ڈھال سے آزمائشوں،فتنوں اور بدحالیوں کو ٹالا جاسکتا ہے اور اسی کے ذریعے سے ان عظیم الشان نعمتوں اور جنتوں کو حاصل کیاجاسکتا ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے وعدہ کر رکھا ہے۔
مسلمانو! امت جو آج بڑے بڑے مسائل کا شکار ہے اور ہر طرف آگ کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور پورے عالم میں سلگتے بھڑکتے مسائل کا ایک طوفان برپا ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ تاریخ کے اس نازک موڑ پر ہم اس امت کی تاریخ کا ایک بار پھر بغور مطالعہ کریں اور قانون قدرت کی روشنی میں اس امت کے مستقبل کی فکر کریں اور اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ ہم میں سے ہر ایک سچے دل سے اپنے معاملات کا جائزہ لیتے ہوئے اپنا محاسبہ کرے اور پھر اس سے پہلے کہ تجددپسندی اورروشن خیالی کا ایساسیلاب اس امت کو بہا لے جائے اور نیست و نابود کردے ہمیں اپنے اسلام کے مجد و شرف اور اپنی شاندار تہذیب و تمدن کو لوٹ آنے کے لیے کمر بستہ ہونا چاہئے۔ میں مسلمانوں کو اس امن کے گھر، مسجد الحرام ، سے مسجد اقصیٰ کی طرف لے جانا چاہوں گا۔ وہ مسجد اقصٰی جو خاک اور خون میں لت پت ہے ، جو ہلا دینے والے مصائب سے گزر رہی ہے، جس کو یہودیوں کی ان آخری چیرہ دستیوں نے بے حال کرکے رکھ دیا ، جس پر کوئی بھی غیرت مند مسلمان خاموش نہیں رہ سکتا اور جس پر کسی بھی طرح چشم پوشی نہیں کی جاسکتی۔ (وللہ الامر من قبل و من بعد) ان دونوں مسجدوں کے درمیان شرعی اور تاریخی ربط اور تعلق کو بخوبی معلوم کیاجاسکتا ہے۔
ترجمہ: ''پاک ہے وہ جو لے گیا ایک رات اپنے بندے کو مسجد حرام سے دور کی اس مسجد تک جس کے ماحول کو اس نے برکت دی ہے تاکہ اسے اپنی کچھ نشانیوں کا مشاہدہ کرائے، حقیقت میں وہی ہے سب کچھ سننے اور دیکھنے والا''تاریخی اعتبار سے یہی ایک مسئلہ ہے جس سے ہمارے شرعی ثوابت ، تاریخی حقوق اور ہمارے تہذیب و تمدن کے بڑے کارنامے متعلق ہیں۔ اور یہی وہ موضوع ہے جس کے سبب عالمی سطح پر دشمنیوں اور عداوتوں نے جنم لیا ہے اور جس کی بنا پر پورا عالم دو حصوں میں تقسیم ہوا ہے اور اس نے اصطلاحات کی جنگ کو جنم دیاہے اور اس میں کھوکھلے نعروں اور غیر موثر قراردادوں کا پتا چلا ہے۔ عالم کفر کی طرف سے مسلسل کوششیں کی گئی ہیں کہ فلسطین اور القدس کے مسئلے کو ہمیشہ کے لیے دفن کردیا جائے، اس کی اسلامی حیثیت کو ختم کر کے اس کو محض ایک محدود قومی مسئلہ بنادیا جائے، اس مذموم مقصد کے حصول کے لیے انہوں نے دوغلی پالیسی اور دھوکے اور فریب کے سارے ہتھکنڈے استعمال کیے بلکہ یہاں تک کہ اس سلسلہ میں ہمارے ہی برائے نام مسلمانوں کو استعمال کیاگیا، ان کی یہ معاندانہ اور شاطرانہ پالیسی اس حد تک موثر بھی واقع ہوئی ہے کہ ہمارے بعض شکست خوردہ مسلمان عناصر یہ سمجھنے لگ گئے ہیں کہ یہ ایک پیچیدہ تاریخی مسئلہ ہے جو ہمارے بس سے باہر ہے۔ کیا وہ اس حقیقت کو بھول گئے ہیں کہ ہم ایک ایسی امت ہیں جس کے اپنے شرعی مصادر و منابع ، بنیادی عقائداور تاریخی اور تہذیبی اقدار ہیں۔
بھائیو!قرآن و سنت کو ذرا کھول کردیکھیں، اپنے عقیدے کے اصول کی طرف ذرا متوجہ ہوں، کیاہماری تاریخ نے اس بات کو دوٹوک الفاظ مں بیان نہیں کردیا کہ یہود کے ساتھ ہماری جنگ عقیدے کی جنگ ہے، دینی تشخص اور بقائ اور فنا کی جنگ ہے؟کیا ہم قرآن پاک کی اس آیت کریمہ کو بھول گئے ہیں جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
''تم اہل ایمان کی عداوت میں سب سے زیادہ سخت یہود اور مشرکین کو پاو گے''اور فرمایا:''یہودی اور نصرانی تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے طریقے پر نہ چلنے لگو''۔تاریخ اٹھا کر دیکھیں تم پر یہ بات عیاں ہوجائے گی کہ کل والے یہود آج کے یہود کے بڑے برے سلف اور آج کے یہود دنیا کے بدترین انسان ہیں، انہوں نے کس قدر نعمتوں کو جھٹلایا؟ اللہ تعالی کے کتنے احکامات میں تحریف کی؟ یہ وہی تو ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر بچھڑے کی عبادت کی تھی، انبیائ کی تکذیب کے مرتکب ہوئے،پیغمبروں کو قتل کیا، درحقیقت یہی لوگ اسلامی دعوت کے شدید ترین دشمن اور یہی انسانی تاریخ کی برترین مخلوق ہیں۔
قرآن پاک کے مطابق یہ وہ لوگ ہیں " جن پر خدا نے لعنت کی ، جن پر اس کاغضب ٹوٹا، جن کی شکلیں بگاڑ دی گئیں، جنہوں نے طاغوت کی بندگی اختیار کی ان کا درجہ اور بھی زیادہ برا ہے اور وہ سوائ السبیل سے بہت دور بھٹکے ہوئے ہیں ، یہ وہ یہود ہیں جو دغابازی، فریب، کمینہ پن ، عناد، ظلم اور جبرکا منبع اور شرو فساد کی جڑ ہیں۔
''اور وہ زمین میں فساد برپا کرنے کے لیے تگ و دو کرتے پھرتے ہیں، او راللہ مفسدین کو پسند نہیں کرتا''،کمینگی اور گمراہی میں وہ یہاں تک پہنچے کہ مقام الوہیت اور ربوبیت کو بھی چیلنج کر بیٹھے اور اللہ تعالیٰ کے استہزائ سے بھی باز نہیں آئے۔
'' اللہ نے ان لوگوں کا قول سنا جو کہتے ہیں کہ اللہ فقیر ہے اور ہم غنی ہیں''۔'' اور یہود کہتے ہیں کہ اللہ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں ، سنو باندھے گئے ان کے ہاتھ اور لعنت کردی گئی ان پر''اللہ تبارک وتعالیٰ کی ذات ان کے ان بیہودہ اقوال اور حرکات سے بالا و برتر اور پاک اور مبرا ہے۔ یہود وہ بدبخت قوم ہے جنہوں نے انبیا علیہم السلام کو مورد الزام ٹھہرایا اور ان پاکیزہ ہستیوں کی طرف گھٹیا باتیں اور جرائم منسوب کیے۔ انہوں نے حضرت موسی
و ستایا، حضرت عیسیکا انکار کیا، یحییاور زکریا ?کو قتل کیا اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے قتل کے لیے بارہا سازشیں کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا اور میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہوں۔ ان بد حیثیت یہودیوں نے آپ کو زہربھی دیا۔قرآن پاک نے ان کی ان گھناونی حرکات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:
''پھر یہ تمہارا کیا ڈھنگ ہے کہ جب بھی کوئی رسول تمہاری خواہشات نفس کے خلاف کوئی چیز لے کر تمہارے پاس آیا ، تو تم نے ان کے مقابلے میں سرکشی ہی کی، کسی کو جھٹلایا اور کسی کو قتل کرڈالا''۔
امت کے سپوتو !آج تمہارا مقابلہ تمہارے ان ابدی اور دائمی دشمنوں سے ہے، جو کل بھی تمہارے دشمن تھے آج بھی دشمن ہیں اور آئندہ بھی دشمن ہی ہوں گے، یہ وہی بنو قریظہ بنو نضیر اور بنو قینقاع کی ملعون اولاد اور نسل ہی تو ہے۔اس وقت اس نافرمان اور مغضوب و مردود قوم کا فساد اور شر تمام حدود سے تجاوز کرگیا۔ کیا اب بھی امت مسملہ اس ملعون قوم کی حقیقت کونہیں سمجھ سکی؟حالت یہ ہے کہ ان کی طرف سے مسلط کردہ جنگ روز بروز بڑھتی جا رہی ہے، اسلامی امت کو ہڑپ کرنے کی ان کی طمع اور حرص میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے، وہ آئے دن مسلمانوں پر چڑھائی کرتے ہیں، ان کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کرتے ہیں اور زور اور قوت کی منطق کے علاوہ اور کسی چیز کو نہ جانتے ہیں اورنہ مانتے ہیں۔
تاریخ گواہ ہے کہ جب امت مسلمہ نے ان کے ساتھ مصالحت کی کوشش کی تو انہوں نے ہمیشہ پہلو تہی کی اور یہ کوئی تعجب کی بات بھی نہیں اس لیے کہ وہ امت کو ختم کرنے، ان کی زمینو ں پر ناجائز قبضہ کرنے، ان کو ہجرت پر مجبور کرنے، ان کی معیشت کو اپنی گرفت میں لینے، ان کی عزت کو پامال کرنے اور بالآخراس سے قیادت اور سیادت کا منصب چھیننے سے کم کسی اور چیز پر راضی ہونے کے لیے تیار نہیں ہیں۔
امت کو جاننا چاہیے کہ یہود ایک ایسی قوم ہے جس کی پوری تاریخ شرمناک سیاہ کاریوں سے عبارت ہے اور یہ اپنے مزموم مقاصد کے حصول تک ہم سے دشمنی کرتے رہیں گے۔ ان کے بنیادی مقاصد میں سے یہ ہے کہ قرآن اور توحید کے علم برداروں کی بستیوں کو ختم کرکے ان کی جگہ '' اسرائیل کبریٰ'' کو قائم کریں،مسجد اقصٰی کو مسمار کر کے مجوزہ ہیکل کی تعمیر کی جائے، حقیقت یہ ہے کہ ایسی قوم کے ساتھ امن ومان کے حوالہ سے بات چیت اور مذاکرات کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ان دنوں غزہ (فلسطین) میں جو کچھ ہو رہا ہے، اسرائیلی درندے جس انسانیت سوز مظالم کا ارتکاب کر رہے ہیں، اس کو تاریخ کبھی نہیں بھول سکتی بلکہ یہ ظالم اپنی سیاہ تاریخ کو مزید سیاہ کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک طرف بم،ٹینک اور گھروں کو اجاڑنے والے بلڈوزر نظر آتی ہیں اور دوسری جانب انسانی کھوپڑیاں اور لاشیں ہیں، محاصرے اور مظلوم لوگوں کو ہجرت پر مجبور کرنے کے واقعات ، قتل، بربادی اور تباہی کے مناطر ہیں تمام انسانی روایات کو پامال کیا گیا، عالمی صہیونزم کی آڑ میں ریاستی دہشت گردی برپا ہے، ہمارے کتنے جوان تہ تیغ ہوئے، کتنے بوڑھوں کو موت کے گھاٹ اتارا گیا اور کتنی بہنوں نے اس سرزمین کو اپنے پاکیزہ خون سے سیراب کیا، مساجد شہید کی گئیں اور کتنے گھروں کو جلایا گیا، کتنی ماوں اور بہنوں کی عصمتیں لٹ گئیں اور کتنے بچے یتیم ہوئے، تاریخ کے حساب دان اس کا جواب دینے سے قاصر ہیں ہرطرف خوفناک اور دل دہلا دینیوالے مناظر ہیں۔
آخر کب تک ذلت اور پستی، ہزیمت اور خود سپردگی کا یہ سلسلہ جاری رہے گا؟
کیا ابھی تک وہ وقت نہیں آیا کہ اس ذلت آمیز سلسلہ کو ختم کیا جائے؟اور کمزوری اور بے بسی کی اس سیاہ رات کو رخصت کیاجائے؟تو کیااب بھی ہماری امت خواب غفلت سے بیدار ہونے کے لیے تیا رنہیں ہے؟میں اسلامی امت کو خبردار کرنا چاہتا ہوں کہ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور ارض مقدس فلسطین اور اقصٰی کی تباہی سے پہلے اس کے بچاو کی تدبیر کریں۔
یاد رکھو! وہ عناصر جنہوں نے یہ تباہ کن عصری جنگ چھیڑی ہے اور جو قوتیں اس کی پشت پناہی کررہی ہیں وہ کسی بھی طرح خدائے جبار جل جلا لہ کی پکڑ سے نہیں بچ سکیں گی، نہ وہ مظلوم اقوام کے غیض و غضب سے نجات حاصل کرسکیں گی اورتاریخ کے قہر و غضب سے ان کو کوئی نہیں بچا سکے گا۔
یہ ایک ایسا المیہ ہے جس کو بیان کرنے سے زبان عاجز ہے اور انسانی دل جس کی تاب نہیں لا سکتا ،لغت ایسے الفاظ پیش کرنے سے قاصر ہے جن کے ذریعہ سے اس ظلم ، وحشت اور دندگی کو بیان کیا جاسکے، اس ظلم و درندگی کے سامنے دنیا کے سارے پیمانے ہیچ ہیں۔
اے پروردگار!ہم تیری رحمت اور فضل کے امیدوار ہیں، ہماری حفاظت فرما۔
آئے دن معصوم انسانوں کا خون اور مسجد اقصیٰ سمیت مقدس مقامات کی بے حرمتی ایک ایسی صوت حال ہے جس پر ہر آنکھ خون کے آنسو روتی ہے۔
مسلمانان عالم کے لیے یہ لمحہ فکریہ ہے کہ اس مسئلے پر پچاس سال سے زیادہ عرصہ بیت گیا، اور ہروز وہاں کے مظلوم مسلمانوں پر نت نئے مظالم توڑے جا رہے ہیں،کہاں گئے وہ مسلمان جو اپنے بھائیوں کی مدد کیا کرتے تھے؟کیا آج ان میں کوئی حضرت خالد بن ولید ?اور صلاح الدین ایوبی ?کے وارث باقی نہیں رہے؟افسوس صد افسوس ہماری حالت پر ہمیں کیا ہوگیا ہے؟ہمارے مقدس مقامات ہمیں پکار رہے ہیں، ہمارا فلسطین، ہمارا اقصٰی، ہمیں آواز دے رہے ہیں، قبلہ اول سے یہ صدا آر ہی ہے کہ ساری مسجدیں محفوظ ہیں اور میری یہ عزت ہو رہی ہے، اور ہم چین اور سکون سے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ستم ظریفی یہ ہیکہ سب کچھ پوری دنیا کے سامنے دن کی روشنی میں ہور ہا ہے آج مسلمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔
میں پوچھتا ہوں کہ کہاں گئے یہ عالمی ادارے؟ کہاں ہے وہ اقوام متحدہ؟کیا وہ بیواو ں کی فریادیں، یتیم بچوں کی چیخیں اور مظلوم خواتین کی آہیں نہیں سن رہے؟کیا اس سرزمین پر یہودیوں کا ناجائز قبضہ اور انسانی حقوق کی پامالی ان کو نظر نہیں آرہی؟کیا انسانی حقوق کے دعویدار یہ سب کچھ نہیں دیکھ رہے؟عالمی قوانین کی دھجیاں اڑانے والے غنڈوں اور درندوں کے ساتھ سیاسی بائیکاٹ کیوں نہیں کیاجاتا؟اور ان پر معاشی پابندیاں کیوں نہیں لگائی جاتی؟
پس اے دنیا کے لیڈرو!فیصلے کرنے والو! اہل نظر انسانو!اور دہشت گردی کے خلاف اعلان جنگ کرنے والو!فلسطین میں ہونے والے جرائم اور وہاں پر مظلوم مسلمانوں کے قتل عام کو تم کیا نام دیتے ہو؟ افسوس کہ ان لوگوں کو دہشت گرد قرار دیاجار ہا ہے جو اپنے مقدس مقامات کی حفاظت اور ظلم و وحشت کے خلا ف آوازاٹھاتے ہیں؟
ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم جوش، جذبوں اور ولولوں کے ساتھ، حکمت، عقل ، تدبیر اور ہوش سے کام لیں اور بھرپور منصوبہ بندی کے ساتھ یہودی سازشوں کا مقابلہ کریں۔
جان لو! کہ تمام مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ فلسطین اور دیگر محاذوں پر اپنے مجبور مسلمان بھائیوں کی مالی ، جسمانی اور اخلاقی مدد کے لیے تیار ہوجائیں۔ انفاق فی سبیل اللہ کے جذبے کو تازہ کریں۔
عزیزان محترم!
اس سلسلہ میں مسلمانان عالم کی مالی قربانی ایک نیک شگون ہے، پوری دنیا کے مسلمان جو ہر موڑ اور ہر محاذ پر اپنے مسلمان بھائیوں کے ساتھ شانہ بشانہ نظر آتی ہے کی قربانیاں امید کی ایک نئی کرن ہے۔مسئلہ فلسطین کی تائیدو حمایت ہمیشہ سے ہماری خارجہ پالیسی کا جزو لاینفک رہا ہے۔ میں اس موقعہ پر تمام مسلمانوں کو خبردار کرتا ہوں کہ ہمیں متحد ہوکر اس مشن کو جاری رکھنا ہوگا اور اپنے مقدس مقامات کا دفاع کرنا ہوگا، اس میں ذرہ برابرکو تاہی بھی برداشت نہیں ہوسکتی۔
برادران اسلام! سازشی یہودیوں کے مقابلہ میں سب سے پہلا اور بنیادی قدم یہ ہے کہ ہم اپنی اندرونی اصلاح کریں۔ امت کی داخلی اصلاح، پوری امت کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرکے دشمن کے مقابلے میں لا کھڑا کرنا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ نیز ان حالات میں دوست اور دشمن کی پہچان بھی ایک بنیادی مسئلہ ہے اور دشمن کی سازشوں اور چالبازیوں کو جاننا بھی انتہائی ضروری ہے بدقسمتی سے انہوں نے ہمارے اندر ہی اپنے لیے ایجنٹ پیدا کر لیے ہیں جو اسلامی عقائد اور افکار سے بالکل عاری ہیں اور ان کی بولی بولتے ہیں، جو گمراہی اور ضلالت میں بہت آگے نکل گئے ہیں ، جن کی نظر میں اسلامی مقدسات نام کی کوئی چیز سرے سے ہے ہی نہیں اور جو مسجد اقصٰی کو دنیا کی دیگر عمارتوں کی طرح ایک عمارت سمجھتے ہیں۔
اختلاف و افتراق اور آپس میں بغض و عداوت، حسد اور بدعات وخرافات وہ مہلک بیماریاں ہیں جنہوں نے امت مسلمہ کے وجود کو کھوکھلا کردیا ہے اس لیے دشمن کا مقابلہ کرنے سے پہلے ان جان لیوا بیماریوں کا علاج نہایت ضروری اور اہم ہے۔
یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ امت اسی نسخہ سے شفایاب ہو سکتی ہے جس کے ذریعہ سے اس نے ابتدائے اسلام میں شفا پائی تھی۔
یاد رکھیے! کہ عقائد، اخلاق اور معاشرتی اقدار کو پس پشت ڈالنا معاشروں میں ناکامیوں اور بدبختیوں کا پیش خیمہ ہوا کرتا ہے۔
ہم اپنے مقدس مقامات کو دشمنوں سے اسی وقت آزاد کراسکتے ہیں جب ہم اپنے عقائد اور اخلاقیات پر کاربند ہوں، فضائل کو اختیار کرنے اور رذائل سے اجتناب کرنے والے بن جائیں۔ جب ہم طاغوت کی پیروی چھوڑ کر صحیح معنوں میں رحمان کے بندے بن جائیں ،بے پردگی اور اختلاط مردو زن اور بے حیائی کو اپنے اسلامی معاشروں سے نکال باہر کریں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی حالت پر رحم فرمائے اور ان کی اصلاح احوال فرمائے۔ آمین
مترجم:معراج الدین ندوی(یو این این