Powered By Blogger

Wednesday, December 1, 2010

تہذیبی ٹکراو....مغرب کا انجام

تہذیبی ٹکراو....مغرب کا انجام


  تہذیب کا وجودقوت ،معیشت اور ٹیکنالوجی کے بغیر ممکن نہیںہے۔قرآنِ حکیم نے بصراحت یہ وضاحت کی ہے کہ جن تہذیبوں کو ہلاک کیاگیا انہوں نے علاقوں اور ملکوں کو فتح کیا ،ان کو تعمیر کیا اور اس کے بعد پھر فسق و فجور اور سرکشی اختیار کی ۔علّامہ اقبال نے اس کو بڑی خوبصورتی سے نظم کیا ہے
 اگر تہذیبوں کی موت وحیات کی نشو و نما اور زوال و انحطاط وہی ہے جس کا تذکرہ ہمیں قرآنِ حکیم میں ملتا ہے (اور یقینا وہی ہے) اور جس کی طرف حکیم الامت علّامہ اقبالؒ نے اپنے منظوم کلام میں یوں اشارہ کیا ہے کہ:
جہاں تک مغرب کی اندرونی بربادی کا تعلق ہے جس کو وہ ملمع کر کے دنیا کے ظاہربینوں کے سامنے پیش کرتا رہتا ہے ،حالانکہ اس بربادی کا رونا مغرب کے اہل دانش و فلسفہ گزشتہ پانچ دہائیوں سے رو رہے ہیں وہ مغرب کے المناک اور درد ناک مستقبل کے موضوع کو لے کرپریشانی اور سراسیمگی کی حالت میںمستقل لکھ رہے ہیں ،یہ تہذیب پانچ صدیوں سے اتنی خونخوار اور انسان دشمن بن چکی ہے کہ کسی کو ہیروشیما بناتی ہے ،کسی کو ناگاساکی بناتی ہے ، کسی کو فالوجہ، افغان و عراق کے ذکر خیر سے تو اللہ ہی حافظ ہے۔
اس امر کی حقیقت تو تب ظاہر ہوگی جب کوئی صلاح الدین ایوبی ،کوئی ٹیپوسلطان ،کوئی سلطان محمد اور کوئی مہدی سوڈانی سامنے آئے گا ۔اس وقت مغرب کے مقابلہ میں ایک چھوٹی سی قوت میدان میں موجود ہے ،جس کے پاس قوت وطاقت کے معروف وسائل وذرائع میں سے کوئی ذریعہ یا وسیلہ نہیں ہے ،لیکن اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مغربی تہذیب کو زمین بوس کرنے کےلئے ایک نحیف و ناتواں لیکن منظم و متحد طاقت و قوت بھی کافی ہے اور اگر کوئی قوی مد مقابل آجائے تو یہ دھڑام سے گرے گی ۔
جہاں تک اسلامی تہذیب و ثقافت کی اندرونی حالت کا تعلق ہے تو اس کا مقابلہ اور موازنہ اگر مغربی تہذیب و ثقافت کی حالت سے کیا جائے تو اسلامی تہذیب کی حالت بہت اعلیٰ اور عمدہ ہونے کے ساتھ ساتھ بے نظیر و بے مثال بھی ہے ۔
ہمارے آج کے بعض دانشور حضرات خوف زدہ ہیں ، وہ ان قوتوں کا نام لینا گویا اپنے آپ کوموت کی دہلیز پر پہنچانے کے برابر تصور کرتے ہیں ،بعض دوسرے مایوسی کے دلدل میں غوطہ زن ہیں لیکن قرآن حکیم کی روشنی میں امید کی یہ کرن دور دور سے عیاں ہوکر یہ نوید سنا رہی ہے کہاہل مغرب اور ان کی مادی قوت ، اسلحہ ، ترقیات ، قوت ومعیشت اور ابلاغی گرفت جو ہرعام و خاص کے بیڈروم تک پہنچ رکھتی ہے ،ان سب کے مقابلے میںایک خفیہ قوت ہے جو ظاہری نگاہوں سے اوجھل ہے خصوصا ان دانشوروں اور عام لوگوں کی نظروں سے ،جو ہر برائی اور اچھائی کو مغربی دوربین سے دیکھتے ہیں ،لیکن اگر ایمانی دوربین اور فراستِ مومن کی دُوربین سے دیکھا جائے تو ان سب مادی ،معاشی،اور ابلاغی قوتوں کا مقابلہ اسلامی تہذیب ہی کررہی ہے اور اس کی چمک دمک کا ظہور ہونے ہی والا ہے ۔ لیظھرہ علی الدین کلہ ولو کرہ المشرکون ۔
ہمارے چارہ گر ، اور بعض نادان اور بد نیت ، مسلمانوں کو اس تہذیبی جنگ میں یہ حلبتاتے ہیںکہ اسلامی تہذیب و ثقافت میں اصلاح کے نام سے کوئی ایسی کاٹ چھانٹ کرو کہ اسے جدید دور کے روشن خیال اور اعتدال پسند مسلما ن بھی آسانی کے ساتھ قبول کرلیں اور رجعت پسند اور بنیاد پرستوں کےلئے بھی کوئی اعتراض کرنے کا موقعہ ہاتھ نہ آئے اور ہمارا دشمن بھی مطمئن ہو جائے۔حالانکہ ہم جو توقعات رکھتے ہیںکہ ایسا کرنے سے اسلام دشمن مطمئن ہوجائیںگے ،تو یہ توقع ایک سراب ہے ،بلکہ یہ اپنے آپ کو دھوکہ دینا ہے ،یہ توقع پوری انسانی تاریخ سے حاصل ہونے والے سبق کے خلاف اور ضد ہے ، مغرب مسلمانوں کی کسی تشریح اور تاویل سے مطمئن نہیں ہوگا ،خود مغربی میڈیا اور ذرائع اطلاعات اور حکومتی حلقوں اور اداروں کے اعتراضات کے باوجود کہ بش اور بلیرنے خالص جھوٹ بول کر نہتے افغانستان اور بے قصور عراق پر حملہ کیا ہے ،مگر اس کے باوجود وہ اپنی جارحیت سے بازنہیں آئے بلکہ تباہ کاری کے ہتھیاروںکے الزام کے بعد انہوں نے جمہوریت کے نام سے اپنی جارحیت اور بربریت کو آگے بڑھایا ۔
مغربی تہذیب کے علمبرداروں اور اسلام کے دشمنوں نے اپنے مقاصد کےلئے اپنے منظورِ نظر لوگوں اور دوستوںکے قتل تک کا ارتکاب کرنے میں ذرہ برابر تامل سے کام نہیں لیا ،جنرل ضیاءالحق اور رفیق حریری کو انہوں نے قتل کرایا ۔جن ملکوں میں انہیں کام کرنا ہوتا ہے وہاں اگر ان کے مقاصد اور اہداف ٹھنڈے پڑجاتے ہیں تو وہ وہاں کسی بڑی شخصیت کے قتل کرنے میں اپنے مقاصد کا حصول تصور کرتے ہیں ۔اس وقت پاکستان کی ایٹمی قوت ان ظالموں کی نگاہوں میں ہے وہ وہاںفرقہ واریت کے ذریعہ بدامنی پھیلا کر ایک تو دہشت گردی کو ثابت کرنا چاہتے ہیں ،دوسریہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ یہ ایٹم بم ان لوگوں کے ہاتھ لگ سکتا ہے ۔
ا لغرض مغرب مسلمانوں کی کسی لچک اور کسی تشریحِ اسلام سے مطمئن ہونے کے لئے تیار نہیں ہے ،اور نہ ہی اس کے لئے وہ کبھی تیار ہوگاکہ اس کے (مغرب)ہوتے ہوئے اسلام کا عدل و انصاف دنیا میں قائم ہو ،چونکہ قرآنِ حکیم میں اس بات کی طرف بہت ہی عمدہ طریقہ سے اشارہ کیا گیا ہے کہ یہود و انصاریٰ تم سے کبھی راضی نہیں ہوں گے الا یہ کہ تم ان کے تابع ہوجا ۔قرآنی نقطئہ نظر سے شیطانی تہذیب و یلغاراور اس کی شر انگیزیوں سے محفوظ ہونے یا رہنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ عالمی قوتوں کے مقابلہ میں عدل و انصاف پر مبنی قوت کو قائم کیاجائے جس کی پکڑ ہر اس ظلم و طغیان پر ہو جو دنیا میں انسانیت اور انسانی اقدار کے لئے مضر اور پر خطر ہو ۔
 جو دانشور حضرات نورِ رب سے کائنات کی ہر شے کو دیکھتے ہیں ان کا ایمان ہے کہ مغرب کی شیطانی تہذیب کا زوال مقدر ہے وہ روما سے اٹھی ،پھر فرانس میں پناہ لے لی ،پھر برطانیہ کے جزیرے میںجا بسی،پھر یورپ سے روس کی طرف آئی اور اب اس کی رہائش اور آماجگاہ امریکا میں ہے اور امریکانے وہ عمل یاکرتوت شروع کر دیے ہے جو نوح علیہ السلام سے ادھر تمام شیطانی تہذیبوں کی ہلاکت وبربادی کا سبب ہوتا رہا ہے ،یعنی مادی ترقی کے نشہ میں اللہ کی زمین کو فتنہ و فسادسے بھر دینا اور جنگی قوت کا بے دریغ استعمال ،ترقیات کے بعد خدا کی مخلوق میں فسق وفجور پھیلانا اور آخر میں ظلم و عدوان کی حدیں بھی پامال کرنا اورکتنی ہی تہذیبوں کو ہم نے نوح کے بعد تباہ و برباد کیا کیونکہ اللہ اپنے بندوں کی بدکاریوں سے اچھی طرح باخبر ہے۔(۷۱ ۔۱۷)
اس بات سے شاید ہی کوئی ذی حس اور عقل و خرد کا مالک انکار کرے کہ تاریخِ عالم میںصرف ایک ہی تہذیب ہے جس نے دنیاکی تمام تہذیبوں پر خوشگواراثر چھوڑا ہے جس میں پوری انسانیت نے امن وسکون اور راحت کا سانس لیا اور وہ اسلام کی آفاقی اور روحانی تہذیب ہے آج اگر ہم حقیقت کے اصولوں پر مغربی تہذیب کو پرکھنا چاہیں گے تو ہم مغربی تہذیب کو اندر سے کھوکھلی پائیں گے جس سے ایک معمولی ربانی جھٹکے کی ضرورت ہے ۔تہذیب و تمدن کے معاملے میں ہمارے علماءاور دانشور حضرات نہایت ہی سطحی امور کوزیرِ بحث لاتے ہیں مثلا داڑھی ،مونچھ ،لباس کی تراش وخراش وغیرہ اور جن چیزوں کی وجہ سے ایک تہذیب دوسری تہذیبوں پر اثرانداز ہوتی ہے یا جن پر وہ غلبہ پا کر دوسری تہذیبوں کو اپنا غلام اور باندھی بناتی ہے اس سے امت کی اکثریت بے خبر و لاپرواہ ہے لیکن اس حقیقت سے بھی کوئی مفر نہیں ہے کہ اسلام اور اسلامی تہذیب کے غلبہ کے آثار دن بدن روزِ روشن کی طرح عیاں ہورہے ہیں ،بقولِ مولانا مودودیؒ کے کہ سو شلزم کو ماسکو میں اور سرمایہ داری کو واشنگٹن میں پناہ نہ ملے گی۔سوشلزم تو ماسکوسے ختم ہوگیا اور سرمایہ داری کا قبرستان ہموار ہورہا ہے ،میں اس میںذر ااضافہ کرتا ہو کہ روما ،فرانس ، برطانیہ، ماسکو اور واشنگٹن میں پناہ لینے والی مغربی تہذیب کو شاید اب زمین کے کسی اور مرکز میں پناہ نہ ملے۔یہ تہذیب اب امریکہ میں خودکشی کرے گی کیونکہ اس نے دنیا میں شر وفساد کی تمام حدیں پھلانگ دی



ہیں ۔




و اس بات کا برملا اظہار کیا جاسکتا ہے کہ مغرب کی شیطانی تہذیب چار یا پانچ سو سال سے تن تنہا اس وسیع وعریض کائنات پر ناچ رہی ہے ا ور دنیا کو اپنے اشارہ پر جس رُخ پر ڈالنا چاہتی ہے اس رُخ پر اس کو بلا خوفِ تردید ڈال دیتی ہے کیونکہ اس کے گرنے کے بظاہر آثار دور دور تک سجھائی نہیں دے رہے ہیں اور نہ ہی کوئی بیرونی خطرہ،کوئی قوت(واعدولھم ) اور کوئی ترقی (اعلیٰ معیشت)اس کے خلاف میدان میں موجود نہیں ہے ۔

No comments:

Post a Comment