Powered By Blogger

Thursday, December 2, 2010

موجودہ تبلیغی جماعت مولانا الیاس کے طریقہ پر نہیں

موجودہ تبلیغی جماعت مولانا الیاس کے طریقہ پر نہیں

تبلیغی جماعت کی تاسیس کے وقت بعض دیوبندی علماء نے اعتراض کیا تھا کہ عام آدمیوں کی تبلیغی جماعت بنانے سے تبلیغ دین کا کام جہلا کے ہاتھ میں آجائے گا جس کا جواب مولانا الیاس صاحب نے یہ دیا تھا کہ ان لوگوں کو وعظ کی اجازت نہیں ہوگی بلکہ ان لوگوں کا کام صرف لوگوں کو جمع کرکے کسی عالم کے پاس لانا ہوگا اور اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا زکریا صاحب لکھتے ہیں:

{ وعظ درحقیقت صرف عالموں کا کام ہے جاہلوں کو وعظ کہنا جائز نہیں اس کے لیے عالم ہونا بہت ضروری ہے تاکہ جو کچھ وه کہے وہ شریعت کے موافق ہو، کوئی چيز قرآن و حدیث کے خلاف نہ کہی جا سکے اور تبلیغ جس کے معنی صرف پیغام پہنچادینے کے ہیں، کوئی پیام کسی کے ہاتھ بھیح دینے کے واسطے اس کا عالم ہونا بلکل ضروری نہیں ہے- دراصل وجہ یہی ہے تبلیغی جماعت کے لوگ عامی ہوتے ہیں ان کو واعظ کہنے کی اجازت نہیں ہے }
( تبلیغی جماعتی پر اعتراضات اور انکے جوابات از مولانا زکریا صاحب، ص:48)
لیکن اس کے برخلاف اگر موجودہ تبلیغی جماعت کو دیکھا جائے تو جو بھی اس جماعت میں میں آٹھ دس سال گذار چکا ہو وہ اپنے آپ کو علّامہ سمجھنے لگتا ہے اور مجمع اکھٹا کرکے اس مجمع سے گھنٹہ بھر خطاب کرتا ہے البتہ جب انہیں کہا جائے کہ اپنی تقریر شروع کرنے سے قبل حمد وثناء کیا کرو یہ نبی پاک ۖ کی سنت ہے تو وہ کہتے ہیں کہ نہیں یہ وعظ کےلیے اور علماء کے لیے ہے اور ہم وعظ نہیں کررہے اور چونکہ ان جماعتوں کے ساتھ کوئی عالم بھی نہیں ہوتا اسلیے امیر جماعت یا مقرر صاحب جو کچھ بھی الٹا سیدھا بیان کرتے ہیں سننے والے اسی کو دین کی بات سمجھ کر اس پر ایمان لے آتے ہیں، دراصل تبلیغی جماعت کی بنیاد کسی ٹھوس اصول پر رکھی ہی نہیں گئی اس لیے یہ ابتداء سے ہی تغیر کا شکار ہے جس کا اعتراف خود زکریا صاحب نے بھی کیا ہے لکھتے ہیں

{ موجودہ تبلیغ چونکہ حضرت دہلوی کے طرز پر نہیں رہی اس لیے اب یہ ضلالت و گمراہی ہے}
( تبلیغی جماعتی پر اعتراضات اور انکے جوابات از مولانا زکریا صاحب، ص:192)
اس اعتراض کو نقل کرکے زکریا صاحب نے اسکی تردید نہیں کی بلکہ تبلیغی جماعت میں پیدا ہونے والے اس تغیر کو تسلیم کرتے ہوئے اسکی متعدد دلیلوں سے تاویل کرنے کی کوشش کی جاتي ہے مگر موجودہ دور میں ان تاویلوں کی مدد سے اس جماعت کی افادیت اور ضرورت کو ہرگز ثابت نہیں کیا جاسکتا کیونکہ تبلیغی جماعت اپنے غلط عقائد و نظریات کے باعث اب اس کام کی اہل نہیں ہے کیونکہ جس دین کی تبلیغ یہ جماعت کسی علاقہ میں کرے گی وہاں دین اسلام نہیں بلکہ دین تصوف پھیلے گا نیز اس جماعت کے لوگ اب وعظ اور تقریر کے بھی عادی ہوچکے ہیں جو مزید سونے پہ سہاگہ ہے اس طرح کسی کے عقائد کو بگاڑنے میں جو کسر تبلیغی جماعت سے رہ جاتی ہے وہ ان خود ساختہ واعظوں سے پوری ہوجاتی ہے بلکہ اب توتبلیغی جماعت کے یہ لوگ واعظ سے بھی آگے بڑھ کر مفتی تک بن چکے ہیں

ا تبلیغی جماعت جس کو بانی جماعت کی جانب سے وعظ کرنے کی بھی اجازت نہیں تھی آج نہ صرف تبلیغی نصاب سے ہٹ کر وعظ کرتی ہے بلکہ اس جماعت کےلوگ اپنے تئیں مفتی بھی بن چکے ہیں جو لوگوں پر خارج از اسلام اور کفر کے فتوی جاری کرنے میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے ہیں اور تبليغي جماعت كو آخري سفينه نجات تصور كرتے ہیں
ہماری دعا ہے کہ اللہ ان کو قرآن و حدیث کو صحیح معنوں میں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


No comments:

Post a Comment