Powered By Blogger

Thursday, December 2, 2010

حدیث اور سنت

حدیث اور سنت
محترم معراج الدين ندوي صاحب !
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
میں نے ایک عالم ڈاکٹر علامہ خالد محمود حفظہ اللہ صاحب کا درس سنا، انہوں نے فرمایا کہ" ہر حدیث قابل اتباع یا قابل عمل نہیں ہوتی جو حدیث سنت کے درجے کو نہ پہنچے اس پر عمل جائز نہیں"۔انہوں نے کہا کہ" حدیث کبھی ضعیف بھی ہوتی ہے مگر سنت کبھی ضعیف نہیں ہوتی"۔ نیز فرمایا کہ "نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث علم کا ذخیرہ ہیں اور ان کے اندر "سنت" کی تلاش علم اور فقہ کا کام ہے"۔کیا مذکورہ عالم صاحب کا حدیث اور سنت میں یہ فرق کرنا درست ہے ؟ مجھے چند مثالوں سے سمجھا دیجیے۔ کیا آئمہ سلف یعنی حضرات صحابہ کرام ؓ اور تابعینؒ و تبع تابعین ؒ وغیرہ بھی حدیث اور سنت میں اس طرح کا فرق کیا کرتے تھے۔کیا تمام متقدمین محدیثین اور ائمہ اہلسنت اور عصر حضر میں اہل سنت بھی اس فرق کو تسلیم کرتے اور بیان کرتے ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم
کی کونسی بات سنت ہے یہ حدیث مبارکہ ہی سے پتہ چلے گی ۔ ایک عمل کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کہا جائے مگر وہ حدیث سے ثابت نہ ہو ، یہ کیسے ممکن ہو سکتا ہے ؟؟؟ اللہ آپ کو جزائے خیر دے۔
المستفتی : محمد أشرف وار
جواب
ج:۔ مذکورہ عالم دین کا حدیث اور سنت کے درمیان فرق کرنا درست ہے۔ ایک حدیث شریف میں آتا ہےکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور بچہ اٹھایا ہواتھا،اسی طرح ایک حدیث شریف میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےایک مرتبہ (کسی وجہ سے) کھڑے ہو کر پیشاب فرمایا،مگریہ دونوں باتیں حدیث سے ثابت ہونے کے باوجود سنت نہیں کہلاتیں، کیونکہ سنت کا معنیٰ ہے "چلنے کا راستہ" اورچلنے کا راستہ وہی ہوتا ہے جس پر بار بار چلا جائے، اس پر آنا جانا معمول کا حصہ ہو، مذکورہ دونوں عمل معمول کا حصہ نہیں تھے اسی لیے انہیں سنت نہیں کہا گیا۔
یہ فرق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دور سے لے کر عصرِحاضر کے علماء تک ملحوظ رکھا آرہا ہے،ہمارے علم کے مطابق اس فرق کو تمام مسالک کے حضرات تسلیم کرتے ہیں، اس قسم کے فرق کو سمجھنے کے لیے جو فطری فہم اور ایمانی فراست درکارہوتی ہے اسی کا نام علم فقہ ہے۔
قرآن ،حدیث اور علم فقہ کا منبع ایک ہی ہے ،الگ الگ تقسیم کرنا اور سمجھنا غلط ہے ان کی باہمی نسبت بالکل ایسی ہے جیسے دودھ، دھی اور مکھن ، اگر ایک حقیقت سے نکلی ہوئی ان مختلف چیزوں میں تضاد نہیں سمجھا جاسکتا تو قرآن، حدیث اور فقہ میں بھی تضاد سمجھنا سنگین غلطی ہوگی۔ پس ہر سنت کا حدیث سے ثابت ہونا ضروری ہے مگر ہر حدیث کا سنت ہونا ضروری نہیں.
اور یہی وجہ ہے کہ جب علماء کرام روایات حدیث کے بارے میں ان کا صحیح یا ضعیف ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں تو وہ ان روایات کے لئے جو اصطلاح استعمال کرتے ہیں وہ "حدیث" کی اصطلاح ہی استعمال کرتے ہیں نہ کہ"سنت"کی اور کہتے ہیں کہ یہ حدیث "قیاس" "سنت" اور "اجماع" کے خلاف ہے، اور کبھی یہ نہیں کہتے ہیں کہ یہ سنت ضعیف ہے اسلئے کہ سنت ضعیف ہو ہی نہیں سکتی ہے کیوںکہ سنت تواتر کے واسطہ سے مسلم الثبوت ہوا کرتی ہے جیسا کہ تراویح کی بیس رکعات نماز ضعیف حدیث سے ثابت ضرور ہے لیکن تواتر اور تعامل صحابہ کی وجہ سے وہ سنت کہلائے گی اور مذکورہ حدیث میں ضعف کا نقص بھی مفقود ہوجائے گا  اور اس کے برعکس آٹھ رکعات تراويح کی نماز صرف عمل حدیث کہلائے گا کیوںکہ وہ تواتر ، اجماع اور تعامل صحابہ سے ثابت نہیں ہے۔
ويقول العلامة السيد سليمان الندوي الهندي رحمه الله :
" الحديث كل واقعة نُسبت إلى النبي عليه السلام ولو كان فعلها مرة واحدة في حياته الشريفة ، ولو رواها عنه شخص واحد ، وأما السنة فهي في الحقيقة اسم للعمل المتواتر - أعني كيفية عمل الرسول عليه السلام - المنقولة إلينا بالعمل المتواتر ، بأن عمله النبي عليه السلام ثم من بعده الصحابة ، ومن بعدهم التابعون وهلمَّ جرا ، ولا يُشترط تواترها بالرواية اللفظية ، فطريقة العمل المتواترة هي المسماة بالسنة ، وهي المقرونة بالكتاب في قوله عليه السلام : (تركت فيكم أمرين لن تضلوا ما تمسكتم بهما : كتاب الله تعالى وسنة رسوله ) وهي التي لا يجوز لأحد من المسلمين كائنًا من كان تركها أو مخالفتها وإلا فلا حظ له في الإسلام "   -      " مجلة المنار " (30/673)
سئل الحافظ أبو عمرو بن الصلاح رحمه الله
 قال بعضهم عن الإمام مالك رضي الله عنه إنه جمع بين السنة والحديث ، فما الفرق بين السنة والحديث ؟
فأجاب رضي الله عنه :
السنة ها هنا ضد البدعة ، وقد يكون الإنسان من أهل الحديث وهو مبتدع ، ومالك رضي الله عنه جمع بين السنتين ، فكان عالما بالسنة ، أي الحديث ، ومعتقدا للسنة ، أي كان مذهبه مذهب أهل الحق من غير بدعة
والله أعلم بالثواب


No comments:

Post a Comment