Powered By Blogger

Saturday, December 4, 2010

بھارت اور اسرائیل کے مابین خاموش سفارت کاری کے اہداف


تاریخ گواہ ہے کہ 9/11 کے واقعات کے فوراً بعد بھارت اور اسرائیل دونوں نے صدر بش کی چھیڑی ہوئی ''دہشت گردی کے خلاف جنگ میں'' بلاتوقف شمولیت اختیار کرلی تھی اور اب ان دونوں نے اپنی جملہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان اور چین کے خلاف خفیہ سفارت کاروں کی مہم کا آغاز بھی کر دیا ہے اور آئے دن اس مہم میں اب شدت آتی جارہی ہے۔

کچھ عرصہ قبل بھارتی ہفت روزہ ''آئوٹ لک'' کے 18 فروری 2008 ء کے شمارے میں بھارت میں تعینات اسرائیلی سفیر کا ایک انٹرویو چھپا ہے اور اس انٹرویو میں اسرائیلی سفیر نے اپنی خاموش سفارت کاری کی جانب چند معنی خیز اشارے کئے ہیں انہوں نے بھارت ' اسرائیل دفاعی معاہدے کو ایک معمول کی کارروائی قرار دیتے ہوئے یہ انکشاف کیا ہے کہ اس معاہدے کی رو سے دفاع کے شعبے میں چند ایسے حساس نوعیت کے راز موجود ہیں جنہیں عمداً پردہ اخفا میں رکھا گیا ہے اور یہ معاملات آگے چل کر بھی راز ہی رہیں گے۔

ان تعلقات کے حوالے سے جب ہم پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بھارت ' اسرائیل گٹھ جوڑ 2003 ء تک خفیہ ہی تھا اور پھر جب اسرائیلی وزیر اعظم ایریل شیرون نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو انہوں نے باضابطہ طور پر دونوں ملکوں کے باہمی مراسم کا اعلان کیا تھا۔ اس حوالے سے بھارت کے روزنامے ''دی ٹریبون'' نے 10 ستمبر2003 ء کو لکھا ہے کہ بھارت اور اسرائیل دونوں ملک مفاہمت کی منازل تیزی سے طے کررہے ہیں۔


اس طرح تزویراتی شعبے میں مزید تعاون کی راہیں ہموار کرنے پر بھی اب دونوں ملکوں کے مابین اتفاق رائے طے پاگیا ہے اور اسرائیل اس بات پر بھی رضامند ہے کہ دفاعی شعبے پر اٹھنے والے اخراجات کو اسرائیل بھی پوری طرح شیئر کرے گا اس حوالے سے ''انڈین ایکسپریس'' نے یہ راز فاش کیا ہے کہ اینٹی میزائل سسٹم سے لے کر ہائی ٹکی راڈار تک اور سکائی ڈرونز سے لے کر نائٹ ویژن ایکوپمنٹ تک ان تمام تحقیقی سرگرمیوں میں بھارت ،اسرائیلی
 دفاعی تعاون نے ترقی کی متعدد منازل طے کرلی ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بھارت اور اسرائیل کے مابین تعلقات اندرا گاندھی کے دور میں ہی استوار ہوگئے تھے اور انہوں نے اس وقت کے ''را'' کے سربراہ رامیش ناتھ کو ہدایت کی تھی کہ وہ "موساد" کے ساتھ خفیہ مراسم کو مزید فعال بنائیں تاکہ خفیہ رابطہ کے ذریعے پاکستان ' چین اور شمالی کوریا کی دفاعی سرگرمیوں پر نظر رکھی جاسکے۔  آگے چل کر شهيد جنرل ضیاء الحق کے دور حکومت میں ''را''او ر ''موساد'' کے مشترکہ منصوبوں کا راز فاش ہوگیا تھا جن کی رو سے پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ بھی شامل تھا۔

اس ایک واقعے سے یہ حقیقت ابھر کر سامنے آئی ہے کہ بھارت ' اسرائیل دفاعی معاہدے کی حدود صرف جنگی سازوسامان کی خریدو فروخت تک محدود نہ تھیں بلکہ ان کا دائرہ کار بہت وسیع تھا اور ایشیا اور مڈل ایسٹ کے ممالک میں تزویراتی سطح پر خفیہ اور سرعام سٹرٹیجی کو فروغ دے کر ان ممالک کو نشانے پر رکھنا مقصود تھا۔ چین کی ابھرتی ہوئی اقتصادی اور دفاعی طاقت کے آگے بند باندھنا بھی ''را''''موساد'' کی خفیہ سرگرمیوں میں خصوصی اہمیت کا حامل تھا۔ جولائی1997 ء میں اسرائیلی وزیر اعظم نے بھی بھارت ' اسرائیل کے بڑھتے ہوئے تزویراتی عوامل پر اپنے گہرے اطمینان کا اظہار کیا تھا۔

بھارت اور اسرائیل کی خفیہ ڈپلومیسی کی اور بھی کئی جہتیں ہیں  جن مي
ں چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی طاقت ' دونوں ملکوں کے لئے خطرے کی علامت ہے۔ مزید برآں چین کے جس انداز سے تیسری دنیا کے ممالک کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی سطح پر مراسم استوار ہو رہے ہیں اسے بھی اسرائیل اور بھارت اپنے لئے خطرے کی علامت قرار دیتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کا وجود بھی انہیں کاٹنے کی طرح کھٹکتا ہے اور ان کی چال یہ ہے کہ اگر پاکستان کو اس کی ایٹمی صلاحیت سے محروم کر دیا جائے تو پھر پاکستان اور چین دونوں کی ابھرتی ہوئی قوت کے آگے بندباندھا جاسکتا ہے اس منصوبہ بندی میں اسرائیل اور بھارت کو امریکہ کی آشیر واد بھی حاصل ہے۔

امریکہ اور بھارت کے مابین ''سویلین نیو کلیئراکارڈ'' جو طے پایا ہے اس کے پس پردہ مقاصد میں یہ بات بھی شامل ہے کہ بھارت کی عسکری قوت کو اتنا مضبوط بنا دیا جائے کہ وہ چین کی بڑھتی ہوئی دفاعی صلاحیت کا مقابلہ کرسکے جہاں تک بھارت کی فوجی سرگرمیوں اور تیاریوں کا تعلق ہے اس حوالے سے یہ خبر قابل توجہ ہے کہ دہلی نے شمالی لداخ میں اپنے ہوائی اڈے کا افتتاح کیا ہے۔ یہ ائیر بیس قراقرم کے سٹرٹیجک درے کو لنک کرتا ہے اور چین کی سرحد اکسائے چن ایریا سے صرف آٹھ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ علاوہ ازیں بھارت نے چین ' بھارت سرحد کے آس پاس 10 نئے ہیلی پیڈ بھی تعمیر کیے ہیں۔ ان شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ چین سے نمٹنے کے سلسلے میں بھارت کس قدر مستعد ہے۔

یہاں یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ مئی 1998 ء میں بھارت نے ایٹمی تجربہ کیا تھا تو اس وقت کے ڈیفنس منسٹر جارج فرنانڈس نے سرعام اعلان کیا تھا کہ چین ' بھارت کے لئے خطرہ نمبر ایک ہے اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے بھارت نے مئی2007 ء میں اگنی iii کا کامیاب تجربہ کرلیا تھا اور اس میزائیل کی صلاحیت اتنی بتائی جاتی ہے کہ یہ چین کے تما م شہروں کو اپنے نشانے پر رکھ سکتا ہے ۔ ادھر پاکستان کی ایٹمی صلاحیت بھی بھارت اور اسرائیل دونوں کے لئے حد درجہ تشویش کا باعث ہے۔ان تمام شواهد اور دلائل كو مد نظرركهكر قارئ اصل حقيقت كا خود ادراك كرسكتا هے كه كون كيا چاه رها هے






No comments:

Post a Comment